مناسبتیں
اگر ہم حقیقت میں علاقہ کی سطح پر اسلامی انقلاب کے مسائل پر نظرڈالیں ،تو مشاہدہ کریں گے کہ یہ انقلاب اپنے پیغام کو دنیا کے محروم ومستضعف لوگوں تک پہنچا نے اورایک نمونہ اور مبارزہ کے طورپر اپنی حیثیت کو مسلمانوں میں پہچنوانے میں کامیاب ہوا ۔دوسرے الفاظ میں اس لحاظ سے انقلاب برآمد ہونے میں کامیاب رہا اور اس وقت فلسطین کی تحریک،ایک دوسرااسلامی انقلاب کا روپ اختیار کرچکی ہے اوردنیا والوں کے افکار کو اپنی طرف جذب کر چکی ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اگرہم فرانس اور روس کے انقلابوں کا نام عظیم انقلاب رکھیں تو اسلامی انقلاب کا کیا نام رکھیں؟ اگر اسلامی انقلاب ایک حقیقی انقلاب ہے توفرانس اور روس میں رونما ہونے والی چیز کا کیا نام رکھا جائے؟ بظاہر اسکاچیل کاکہنا حق ہے کہ: فرانس اور روس کے انقلاب آگئے اور ایجاد نہیں کئے گئے۔ ایران کا اسلامی انقلاب آیا نہیں بلکہ موجودہ حالات کے پیش نظر ایجاد کیا گیا، وہ بھی نہ سادگی میں بلکہ تمام ملک کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھر پور کوششوں،قدرتمند رہبری اور دسیوں ہزارانقلاب کے عاشقوں کی عظیم قربا نیوں کی بھاری قیمت اداکرکے۔
سماجی طاقت،ا ن سرگرم سماجی گروہوں سے تشکیل پاتی ہے جو مشترک ا قدار اور عقائد کی بنیادوں پر آپس میں نزدیک ہوتے ہیں۔ جب سیاسی طاقت ان کے ا قدار اور مطالبات کو پورا کرنے کی توانائی یا ارادہ نہیں رکھتی ہے ،تو سماجی گروہ اس سے مأیوس ہو کر ایسے رہبر یارہبروں کی تلاش کرتے ہیں جو ان کے نظریات اور مطالبات کو پورا کرسکیں ۔سماجی طاقت کی ایجاد میں ،تین بنیادی رکن قابل تشخیص ہیں: عوام،رہبری اور آئیڈیا لوجی ۔
جس دن آپ نے جناب امیرالمومنین حضرت علی (علیہ السلام) کے گھر میں قدم رکھا آپ کے بچوں سے مخاطب ہوکر پہلا جملہ یہ ارشاد فرمایا :
میں اس گھر میں آپ کی ماں بن کر نہیں آئی ہوں
میں کہاں اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد کہاں ؟
لا تَدْعُوِنِّی وَیْکِ أُمَّ الْبَنِینَ تُذَکِّرِینِی بِلِیُوثِ الْعَرِینِ
"اب مجھے ام البنین کہہ کر نہ پکارو کہ مجھے اپنے جانباز شیروں کی یاد آ جاتی ہے"
بسم الله الرحمن الرحیم
أَشهَدُ أَن لا إلهَ إلا الله وَحدَهُ لاشَرِیکَ لَهُ
وَ أَشهَدُ أنَّ مُحَمَّدَاً عَبدُهُ وَ رَسُولُهُ
السَّلامُ عَلَیکَ یَا رَسُولَ الله
السَّلامُ عَلَیکَ یَا أَمِیرَ الُمؤمِنین
شہید حاج قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر شہید کی شخصيت پر بہت کچھ لکھا گیا۔ شہیدِ زندگار کی فتح و کامرانی کا راز کیا ہے اور شہید نے کیسے شہادت جیسے عظیم مقام کو درک کیا، اِن پہلوٶں کا جاننا نہایت مہم ہے۔ آٸیے شہید کی زبانی اس عظیم فتح کا راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ شہداء
پھر اس کی اور زیادہ بگڑی شکل طالبان اور داعش کی صورت میں پیش کرکے اسلام کے خلاف نفرت کا طوفان کھڑا کردیا اسلام کی مکروہ صورت پیش کرنے کی عملی صور ت دکھاتے ہوئے سعودی عرب میں بے گناہوں کے قتل عام سے لیکر یمن اور بحرین میں انکی جنایتوں کو نظرمیں رکھا جاسکتا ہے اس سلسلہ میں ایک اور ستم شہید مظلوم
صدیقۂ طاہرہ سلام الله عليها
کا دربارخلافت میں دعویٰ فدک پیش کرنا اور پھر مفصل خطبہ دیکر پورے دربار کو للکارنا ظلم وستم کے خلاف احتجاج ہی تھا۔
امام حسن کا صلح کے شرائط کی صورت میں اور پھراس کے بعد وقتاً فوقتاً اپنے خطاب کے ذریعہ حکام وقت کے خلاف احتجاج آج بھی تاریخ میں ثبت ہے۔
شہادت کی یاد ظلم کے خلاف احتجاج ہے
خداوند عالم نےجس طرح ہر انسان سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ عدل و انصاف سے کام لے اور کائنات کی کسی مخلوق پر ذرہ برابر ظلم نہ کرےاسی طرح اس کا مطالبہ یہ بھی ہےکہ کوئی انسان کسی بھی مخلوق کا ناحق ظلم برداشت نہ کرے ۔