صدیقۂ طاہرہ سلام الله عليها
کا دربارخلافت میں دعویٰ فدک پیش کرنا اور پھر مفصل خطبہ دیکر پورے دربار کو للکارنا ظلم وستم کے خلاف احتجاج ہی تھا۔
امام حسن کا صلح کے شرائط کی صورت میں اور پھراس کے بعد وقتاً فوقتاً اپنے خطاب کے ذریعہ حکام وقت کے خلاف احتجاج آج بھی تاریخ میں ثبت ہے۔
امام حسین کا واقعہ کربلا میں اپنے جانثاروں کی قربانی پیش کرنا بھی ظلم کو بے نقاب کرنے کا ذریعہ تھا پھر واقعہ کربلا کے بعد امام زین العابدین ؑ اور جناب زینب ؑ کے ذریعہ کربلا سے کوفے اور کوفے سے شام تک مسلسل ظلم و ستم کےخلاف احتجاجات اس بات کی دلیل ہیں کہ ظلم سہ کرخاموش ہوجاناکسی طور پرمناسب نہیں ہے ۔
رہبران دین مذہب کی یہ روش ہم سب کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ کبھی بھی بے جا ظلم نہ سہیں اور اگر ظلم سہنا بھی پڑے تو دشمن کے مظالم کے خلاف احتجاج ضرور کریں جیسا کہ شہیدان کربلا کی عزا داری بھی ظلم یزیدی کے خلاف احتجاج ہے۔اسلام اور مسلمان ہمیشہ ہی ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے ہیں چنانچہ اس دور میں بھی اسلام دشمن طاقتیں مختلف ترکیبوں سے اسلام اور مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہی ہیں ۔
اس سلسلہ میں ہر روز نت نئے طریقوں سے دنیا کی مستضعف عوام کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے اورمظلوم کی حمایت میں اٹھنے والی ہرآوازکودبانےاور آوازاٹھانےوالوں کوراستےسےہٹانےکی کوششیں ہوتی ہیں۔
گذشتہ صدیوں میں برطانوی سامراج کے زوال لیکن اسکی فتنہ انگیزیوں نے جو سیاہ اثرات چھوڑے ان کاایک نتیجہ غاصب اسرائیل کاناپاک وجودہے برطانیہ کے بعد ابھرنے والی اس سے زیادہ خونخوار سفاک اور ظالم اپنے کو سپر پاور سمجھنے والی امریکی حکومت نے پوری دنیا پر مظالم کا قہر برسانے کے ساتھ ساتھ مظلوم فلسطینوں کے خلاف اسرائیل کے مظالم کی بھرپور حمایت کی اور ہر اس آواز سے دشمنی کی جو مظلوموں کے حق میں اٹھ سکتی تھی چنانچہ غاصب اسرائیل کی پٹھو شاہ ایران کی حکومت کو اپنی آنکھ کا تارہ سمجھنے والےامریکی حکمرانوں نے انقلاب اسلامی ایران سے دشمنی میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد اہمترین انقلابی شخصیتوں کے قتل سے لیکر صدام ملعون کے ذریعہ آٹھ سالہ جنگ کا تھوپاجانا اسی ہٹ دھرم امریکہ اور غاصب اسرائیل ہی کا کارنامہ تھا ان ظالموں کا سب سے بڑا حربہ یہ ہے کہ یہ نام نہاد مسلمانوں میں سے اپنے حامی تلاش کرلیتے ہیں لہذا سب سے پہلے عرب کے نا اہل حکمرانوں کو ایران میں شیعوں کی شکل میں فرضی دشمن دکھا کر ان کی حفاظت کے نام پر موٹی موٹی رقمیں اینٹھیں پھر اسی صدام کو ان کے مقابلہ میں دشمن بناکر پیش کرکے انھیں مزید ڈراکر ان کے تیل کے زخایر کو بے تحاشا ہڑپا اور آخر ان واقعی اعرابیوں کو فلسطین کا دشمن اور اسرائیل کا حامی بنادیا اس پیچ اعراب کی بے شعوری سے فائدہ اٹھا کر اسلام کے نام پر پہلے وہابیت کا سب سے پڑا حربہ پھینکا جس سے مسلمانوں میں آپس میں اختلاف کا بیج بویا جاسکے ۔
جاری ہے۔۔۔
تحریر: سیدحمیدالحسن زیدی
مدیرالاسوه فاؤنڈیشن سیتاپور
Add new comment