اس حملے کے بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری شیڈو وار براہ راست جنگ میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے ، شیڈو وار میں فریقین خفیہ طور پر ایک دوسرے کے مفادات اور اثاثوں کو نشانہ بناتے لیکن اس کا اعلان نہیں کیا جاتا تھا ، خصوصا اسرائیل شیڈو وار میں ایرانی اعلی دفاعی حکام کو کئی بار کامیابی سے نشانہ بنا چکا ہے نتیجتا ایران نے بھی اسرائیلی اہلکاروں اور تنصیبات کو کئی بار نشانہ بنایا لیکن اس جنگ کا زیادہ تر حصہ ہماری نظروں سے پوشیدہ تھا ، اس حملے کے بعد جنگ کھلے میدان میں لڑے جانے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
اس حملے میں ایران کا مقابلہ صرف اسرائیل کے ساتھ نہیں تھا بلکہ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور اردن سمیت بعض خلیجی ممالک کے مشترکہ اتحاد کے دفاعی نظام سے تھا۔
اتنے بڑے دفاعی نظام کو چیلنج کرنا ہی کامیابی ہے !
جنگی ماہرین کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے دمشق حملے کے بعد جو نفسیاتی اور سفارتی جنگ ایران نے شروع کی ایران اس میں براہ راست حملے سے پہلے ہی کامیاب ہوچکا تھا ، براہ راست حملے سے ایران نے مستقبل کی جنگ کے دائرہ کار کی نشاندہی کی ہے ، ایرانی حملہ نپہ تلا تھا جس میں مدمقابل اتحاد کی طاقت کے علاوہ بین الاقوامی قوانین اور سفارتی قواعد وضوابط کا بھی پورا حساب کتاب کیا گیا تھا۔
ایران نے دمشق حملے کے بعد سے بہت فعال سفارتکاری کی ہے جس کے بعد ان کا کیس بین الاقوامی فورمز پر بہت مضبوط ہے ، مشرق وسطی میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے ، سپر پاورز کے قدم لڑکھڑا رہے اور چھوٹی چھوٹی طاقتیں ان کی جگہ پر مشترکہ طور جگہ لے رہی ہیں ، اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑی لڑائی حتمی ہے کیونکہ یہ کسی علاقائی تنازعہ سے زیادہ ایک نظریاتی جنگ ہے۔
مشرق وسطی میں ایران کی پالیسی کا ایک اہم پہلو سپرپاورز کی جارحیت کے مقابلے میں مقامی مزاحمت کی تشکیل اور اس کی سپورٹ ہے ، لبنان فلسطین شام عراق اور یمن میں موجود مزاحمتی تنظیمیں اور اتحاد اس بات کی دلیل ہیں۔
مقامی مزاحمتی تنظیموں اور اتحادوں کی طاقت درحقیقت ایران ہی کی طاقت ہے ، براہ راست حملے کی طاقت اور صلاحیت کے ساتھ خطے کے مزاحمتی سرکل کو دیکھیں تو اگر اسرائیل اکیلا ہو تو طاقت کا توازن ایران کے حق میں ہے لیکن جیسا کہ اس حملے سے واضح ہوا امریکہ برطانیہ فرانس کے علاوہ خطے کے بعض خلیجی ممالک جیسے اردن وغیرہ بھی مکمل طور پر اسرائیل کی صف میں کھڑے ہیں تو یوں طاقت کا توازن اسرائیل کے حق میں ہے۔
اسرائیل کی صف میں کھڑے ممالک کی طاقت کا اندازہ لگائیں اور پھر ایران کے حملے کا تجزیہ کریں تو یہ یقینا ایک بہت بڑی بلکہ تاریخی کامیابی ہے کہ ایران نے اس سب حساب کتاب کے بعد اسرائیل پر حملہ کیا ہے ، حملے کے فزیکل نقصانات کے بارے اگرچہ کوئی زیادہ معلومات باہر نہیں آئیں اور یہ اسرائیل کا پرانا حربہ بھی ہے کہ وہ جنگی نقصانات کی تفصیلات ذرائع ابلاغ سے شئیر نہیں کرتا اور حساس جگہوں تک ذرائع ابلاغ کو رسائی نہیں دیتا لیکن یہ حملہ فزیکل نقصانات کے علاوہ بھی کئی ایک پہلووں سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
Add new comment