امام موسیٰ الکاظم (علیہ السلام)
حسن بن علی بن نعمان کہتے ہیں کہ ایک سال عباسی خلیفہ مهدی عباسی نے مكه کی مسجد الحرام کو توسیع دینا چاہا مگر ایک مالک نے اپنا گھر بیچنے سے انکار کردیا جو اس توسیع کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن گیا ۔
شيخ مفيد رضوان الله عليه تحریر کرتے ہیں کہ ابوالحسن موسی بن جعفر عليه السلام اپنے دور کے سب بڑے عابد ، عظیم فقیہ ، سب زیادہ سخی اور عزت نفس کے اعلی ترین مرتبہ پر فائز تھے ، حضرت علیہ السلام اس قدر زیادہ نوافل شب پڑھتے کہ صبح صادق نمودار ہوجاتی اور پھر حضرت علیہ السلام بلا فاصلہ نماز صبح ادا فرمات
عبدالله قروی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں فضل بن ربيع کی خدمت میں پہنچا تو وہ گھر کی چھت پر تھے ، انہوں نے مجھے اپنے قریب بلایا ، میں ان کے قریب گیا اور ان کے سامنے کھڑا ہوگیا ، انہوں نے کہا کہ اس کمرے کی جانب دیکھو ! میں نے دیکھا ، انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ تم کیا دیکھ رہے ہو؟
حضرت امام موسی بن جعفر الکاظم علیہ السلام سن 128 هجری قمری میں ابواء علاقہ میں پیدا ہوئے ، اپ کے والد گرامی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام و اپکی والدہ گرامی حمیدہ سلام اللہ علیھا ہیں ۔
خلاصہ: امام موسی کاظم(علیہ السلام) نے اپنے اخلاق کے ذریعہ اپنے دشمنوں کو اپنا دوست بنایا۔
خلاصہ: جو شخص بیکار کی باتیں کرتا ہے وہ اپنے فرشتوں کے ذریعہ ایسے پیغام کو خدا تک پہونچاتا ہے جس میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
خلاصہ: جو کوئی ہر دن اپنا محاسبہ نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
خلاصہ: اچھے کاموں سے لوگوں کو آشنا کروانا اور برے کاموں سے منع کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ اگر کسی کو دیکھیں کہ اپنے وظیفہ پر عمل نہیں کررہا ہے تو اس کو انجام دینے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔
خلاصہ: امام موسی کاظم(علیہ السلام)، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتویں جانشین تھے جس کو خداوند متعال نے امامت کا منصب عطاء فرمایا اور آپ کو لوگوں کی ہدایت کے لئے انتخاب فرمایا۔ امام(علیہ السلام) نے اپنی پوری زندگی اس بات کے لئے صرف کردی کہ لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرمائے۔
خلاصہ: امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام) خداوند متعال کی جانب سے اس بات کے لئے معمور تھے کہ لوگوں کو سیدھے راستہ کی جانب ہدایت فرمائے اور آپ نے اپنے اس کام کے لئے کسی طرح کی کوئی بھی کوتاہی نہیں کی.