لا تَدْعُوِنِّی وَیْکِ أُمَّ الْبَنِینَ تُذَکِّرِینِی بِلِیُوثِ الْعَرِینِ
"اب مجھے ام البنین کہہ کر نہ پکارو کہ مجھے اپنے جانباز شیروں کی یاد آ جاتی ہے"
یہ تاریخِ انسانیت کی اس شجاع و دلیر دل خاتون کا دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والے مرثیہ کا ایک شعر ہے ۔ جسکے نوحوں کی آوازوں کے سامنے آج بھی فرات کی موجیں آب آب ہیں۔ جسکے سوزناک مرثیہ کی صداوں سے علقمہ کی موجیں گریاں کناں ہیں ۔ جسکے درد ناک نالوں کو سن کر آج تک سمندر کی لہریں ساحل پر اپنا سر پٹخ پٹخ کر آواز دے رہی ہیں ہم تیرے لعل کی پیاس کے سمندر کے سامنے شرمندہ ہیں۔
بین الحرمین کی فضاؤں میں آج اس مرثیہ کی آواز کو سنا جا سکتا ہے ۔" اب مجھے ام البنین کہہ کر نہ پکارنا کہ مجھے اپنے جانبازشیر یاد آ جاتے ہیں"
یقینا آج یہ چاروں جانباز شیر بقیع میں اپنی ماں کی قبر پر بیٹھے ہوئے اپنے آنسووں کے چراغ روشن کئے اس راہ کی طرف تک رہے ہوں گے جہاں وارث ابراہیم و موسی و وارث محمد مصطفی (ع) کے قدم ہویدا ہونے کو ہیں اور عنقریب اس ماں کو اپنے صبر کا پھل ملے گا جس نے اپنے چار بیٹے راہ اسلام میں دیکر نہ جانے کتنے بیٹوں کی معنوی حیات کو بچا لیا اور مقصدیت کی راہ میں گامزن ہر بیٹے کو حوصلہ دیا کہ ہاتھ کٹ جائیں لیکن ہمت نہ ہارنا دین کا علم گرنے نہ دینا ایک دن خدا تمہیں بلند کرے گا اور ایسا بلند کرے گا کہ تم سوچتے رہ جاوگے ۔
Add new comment