محمد ابن عجلان کہتے ہیں کہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں تھا کہ ایک شیعہ امام (ع) می خدمت میں پہونچے اور امام (ع) کو سلام کیا ، حضرت (ع) نے ان سے دریافت کیا کہ اپنے بھائی جن کے پاس سے تم آرہے ہو وہ کیسے ہیں ؟
امام (ع) کے جواب میں انہوں نے اپنے بھائی کی تعریفیں کی اور ان کی اچھائیاں بیان کی ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا : فقیروں کے وسیلہ مالداروں کی عیادت کسی تھی ؟
انہوں نے کہا : بہت ناچیز ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا : مالداروں کی غریبوں سے ملاقات و دیدار اور ان کی احوال پرسی کیسی تھی ؟
انہوں نے کہا: وہ بھی ناچیز ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: مالداروں کے وسیلہ غریبوں اور ناداروں کی دستگیری کیسی تھی ؟
انہوں نے عرض کیا : اپ (ع) ان اخلاقیات اور صفات کے بارے میں سوال کر رہے ہیں جو لوگوں میں کم ہے ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : تو پھر کس طرح انہیں اپنا شیعہ جانوں ۔ (۱)
امام علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں : «اِنَّ اللّهَ فَرَضَ عَلَی الأغنِیاءِ فی أَموالِهِمْ بِقَدْرِ ما یَکْفی فُقَراءَهُمْ فَإِنْ جاءُوا وَ عَرَوُا جاهَدُوا فی مَنْعِ الأغنِیاءِ فَحَقٌّ عَلَی اللّهِ أَنْ یُحاسِبَهُمْ یَومَ القِیامَةِ وَ یُعَذِّبَهُمْ عَلَیهِ» ۔ (۲)
خداوند متعال نے مالداروں پر واجب کیا ہے کہ فقیروں کی ضرورت کے بقدر اپنے مال میں ذخیرہ اندوزی کریں کہ اگر غریب بھوکھے یا بے لباس ہیں تو وہ مالداورں کی بے توجہی کی وجہ سے ہے ، خداوند متعال نے قیامت کے دن ان سے اس چیز کا حساب و کتاب کرے گا اور انہیں سزا دے گا ۔
امام علیہ السلام کے کلام میں «بِقَدْرِ ما یَکْفی فُقَراءَهُمْ» فقیروں کی ضرورت کے بقدر کی تعبیر ، ضرورتمندوں کے حق معاش کی جانب اشارہ کر رہی ہے اور اس نکتہ کو بیانگر ہے کہ ضرورتمندوں کی معیشت تامین کی جائے چاہے اسلامی حکومت کے وسیلہ چاہے مالدار طبقہ کے ذریعہ کہ اگر ان لوگوں نے اسے انجام نہ دیا تو یقینا ان سے سوال کیا جائے گا، ان کا محاسبہ ہوگا اور انہیں سزا دی جائے گی ، سماجی کفالت سب کی ذمہ داری ہے خصوصا مالدار طبقہ موظف ہے کہ ضرورتمندوں کی زندگی سے «فقرو تنگدستی» کو ختم کردیں ۔
معاشرہ میں فقر کا مفھوم ، وسیع ہے اور ہر دور میں اس دور کی سطح زندگی کے حساب سے معین کیا جائے گا ، لہذا غریبوں ، فقیروں اور ناداروں کا کمترین سطح پر «حقّ حیات اورحق معاش» اسلامی حکومت اور سرمایہ دار افراد کے عہدہ ہے ۔ (۳)
امام علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ : «فَمَنْ آتاهُ اللّهُ مالاً فَلْیَصِلْ بِهِ القَرابَةَ وَلْیُحْسِنْ مِنهُ الضّیافَةَ وَلْیَفُکَّ بِهِ الأسیرَ وَالعانِیَ وَلْیُعْطِ مِنهُ الفَقیرَ وَ الغارِمَ وَلْیَصْبِرْ نَفْسَهُ عَلَی الحُقوقِ وَالنَّوائِبِ إبْتِغاءَ الثَّوابِ» ۔ (۴)
اگر خداوند متعال نے کسی کو مال و دولت عطا کی ہو تو وہ اس میں سے خیرات کرے ، اپنے رشتہ داروں کو دے اور مہمانی کے دسترخوان بچھائے ، اسیروں کو ازاد کرے اور ضرورتمندوں اور مقروضوں کو دے اور ثواب حاصل کرنے کی غرض سے خدا کے حقوق کے مقابل صبر سے کام لے اور صبر اپنائے ۔
پروردگار عالم سے دعا ہے کہ ہم سب کو سچا شیعہ بننے کی توفیق دے ۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: کلینی ، اصول كافى ، ج۳ ، ص۲۵۱، باب حق المومن على اخيہ ، ح ۱۰ ۔ ’’ عَنْهُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِیسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِى عَبْدِ اللَّهِ ع فَدَخَلَ رَجُلٌ فَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ كَیْفَ مَنْ خَلَّفْتَ مِنْ إِخْوَانِكَ قَالَ فَأَحْسَنَ الثَّنَاءَ وَ زَكَّى وَ أَطْرَى فَقَالَ لَهُ كَیْفَ عِیَادَةُ أَغْنِیَائِهِمْ عَلَى فُقَرَائِهِمْ فَقَالَ قَلِیلَةٌ قَالَ وَ كَیْفَ مُشَاهَدَةُ أَغْنِیَائِهِمْ لِفُقَرَائِهِمْ قَالَ قَلِیلَةٌ قَالَ فَكَیْفَ صِلَةُ أَغْنِیَائِهِمْ لِفُقَرَائِهِمْ فِى ذَاتِ أَیْدِیهِمْ فَقَالَ إِنَّكَ لَتَذْكُرُ أَخْلَاقاً قَلَّ مَا هِیَ فِیمَنْ عِنْدَنَا قَالَ فَقَالَ فَكَیْفَ تَزْعُمُ هَؤُلَاءِ أَنَّهُمْ شِیعَةٌ ‘‘ ۔
۲: محمد ، محمدی ری شهری، موسوعة الامام علیّ بن ابی طالب ، ج ۴، ص ۲۰۳ ۔
۳: دانش نامه امام علی، ج ۷، ص ۹۴ ۔
۴: نهج البلاغۃ، خ ۱۴۲ ۔
Add new comment