سماجی طاقت،ا ن سرگرم سماجی گروہوں سے تشکیل پاتی ہے جو مشترک ا قدار اور عقائد کی بنیادوں پر آپس میں نزدیک ہوتے ہیں۔ جب سیاسی طاقت ان کے ا قدار اور مطالبات کو پورا کرنے کی توانائی یا ارادہ نہیں رکھتی ہے ،تو سماجی گروہ اس سے مأیوس ہو کر ایسے رہبر یارہبروں کی تلاش کرتے ہیں جو ان کے نظریات اور مطالبات کو پورا کرسکیں ۔سماجی طاقت کی ایجاد میں ،تین بنیادی رکن قابل تشخیص ہیں: عوام،رہبری اور آئیڈیا لوجی ۔
سماجی طاقت،ا ن سرگرم سماجی گروہوں سے تشکیل پاتی ہے جو مشترک ا قدار اور عقائد کی بنیادوں پر آپس میں نزدیک ہوتے ہیں۔ جب سیاسی طاقت ان کے ا قدار اور مطالبات کو پورا کرنے کی توانائی یا ارادہ نہیں رکھتی ہے ،تو سماجی گروہ اس سے مأیوس ہو کر ایسے رہبر یارہبروں کی تلاش کرتے ہیں جو ان کے نظریات اور مطالبات کو پورا کرسکیں ۔سماجی طاقت کی ایجاد میں ،تین بنیادی رکن قابل تشخیص ہیں: عوام،رہبری اور آئیڈیا لوجی ۔
الف )لوگوں کی شرکت
فرانس اور روس میں ظالم حکمرانوں کی سرنگونی کے سلسلہ میں لوگوں کی شرکت بہت کم تھی اوریہاں تک کہا گیا ہے کہ ،لوگوں کا کوئی اہم رول نہیں تھا [1]اورفرانس کی حکومت اپنی کمزریوں کی وجہ سے تسلیم ہوئی۔
روس میں پطرزبورگ کے کارخانو ں کے مزدوروں کی ایک محدود تعداد اور اسی شہرکی فوجی چھاونی کے فوجیوں نے بغاوت کی اور یہی مانوف خاندان کے زوال کا سبب بنے۔
لیکن ایران کے اسلامی انقلاب میں [2]،ایک محدود اقلیت اور شاہ کی حکومت سے وابستہ فوج کی اکثریت کے علاوہ تمام ملک کے شہروں اور دیہاتوں میں سماج کے تمام طبقات سے مربو ط لو گوں نے متحد ہوکر ملک کے اقتصاد کے پہیہ کوناکارہ بنادیا اور ہر لحاظ سے مسلح حکومت کے مقابلہ میں خالی ہاتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور سرانجام اسے سرنگوں کردیا ۔بعد کے مطالعات نے نشان دہی کی ہے کہ فرانس اور روس کے انقلابیوں کی کامیابی کے بعد جبکہ ظلم اورڈکٹیٹرشپ کی زنجریں ٹوٹ گئی تھیں اور سیاسی آگاہی اورلوگوں کی شرکت کاماحول پیداہوا تھا ،رفتہ رفتہ اور انقلاب کے بعد والے اعتدال پسند یا انتہا پسند حکام کی بے رغبتی کی وجہ سے یہ شرکت کمزور پڑی ۔انقلاب کے بعد والی تاریخ اور لوگوں کی انتخابات میں شرکت کی تعداد سے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے۔ لیکن اسلامی انقلاب کے بعد مختلف اورمکرر انتخابات میں ایران کے لوگوں نے پے در پے شرکت کی اوریہاں تک بحرانی حالات اورشہروں پر بمباری کے دوران بھی اسلامی جمہوریہ کی سیاسی سر گرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے ضروری انتخابات نہ رکے اور نہ ہی ملتوی ہوئے ۔
گزشتہ برسوں کے دوران ملک کے عوام نے بہت سے انتخابات من جملہ صدر جمہوریہ ،اسلامی پارلیمنٹ ،مجلس خبرگان، اسلامی جمہوریہ کے نظام کے ریفرنڈم ،آئین کے ریفرنڈ موں اور بلدیہ کے انتخابات میں شر کت کی ہے ۔ان انتخابات میں لوگوں کی شرکت کی روزافزوں تعداد نمایاں اور قابل توجہ ہے ۔اس سے اہم تریہ کہ ہر سال انقلاب کی سالگرہ کے موقع پراجتماعات اور مظاہروں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی شر کت عوامی بیداری اور انقلاب کی حمایت کی علامت ہے۔
ب)رہبری
رہبر کا کرداراور اس کی شخصیت بالخصوص اس وقت واضح اور نمایاں ہوتی ہے جب انقلابی گروہوں کے نظریاتی مطالبات متفرق اور پراکندہ ہوں یاان کا نظم وضبط کمزور ہو ۔اس صورت میں رہبری کارول اور ا س کی اہمیت انقلاب کے مراحل کے ساتھ ساتھ وسعت پاتے ہیں ۔ دوسری طرف سے انقلاب کے رہبروں کارول تین اہم پہلوؤں میں مشاہدہ کیاجاسکتاہے، جویوں ہیں :انقلاب کا نظریہ پیش کرنے والا، کمانڈراور بالاخر کامیابی کے بعدنظام کا معماریعنی رہبر۔
زیر بحث انقلابوں میں رہبروں کے رول کی اجمالی تحقیق اورموازنہ سے مشاہدہ کیاجاسکتاہے کہ انقلاب کے اس رکن میں بھی عوامی رکن کے مانند ،اسلامی انقلاب قدرت،امتیاز اور غیر معمولی خصوصیات کے لحاظ سے استثنائی حیثیت رکھتا تھا جس سے فرانس اور روس کے انقلاب محروم تھے ۔
ج)آئیڈیا لوجی
انقلاب سے پہلے مذکورہ ملکوں کے معاشروں اور نظام میں مشروعیت اور استحکام کا واحد سبب بادشاہی ادارے تھے ،جو انقلاب کی حالت میں بے اعتبار ہوچکے تھے ،اس لئے انقلاب کی آئیڈیا لوجیاں اس امر کی ذمہ دار تھیں کہ نئی بنیادوں پر حکومت کی داغ بیل ڈال کر اس کی توجیہ اور استدلال کریں ۔ضمناً بیان شدہ مکاتب فکر چیدہ انقلابی افراد کی مدد کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو مبارزے اور سیاسی سرگرمیوں کی طرف تحریک کرنے کے لئے ضروری استحکام اورنظم وضبط بخشیں ۔
زیر نظر انقلابوں پر حاکم آئیڈیالوجی کی اجمالی تحقیق سے معلوم ہوتاہے کہ فرانس اور روس میں لیبرل ازم اور مارکسیزم کے مکاتب فکر مادی نقطہ نظر سے اپنے پیروکا روں کے لئے اسی دنیامیں صرف ایک ہی زاویہ میں ایک محدود افق فراہم کرتے تھے اور فرانس اور روس کی بادشاہی حکومتوں کی سرنگونی کے لئے کوئی خاص کردارادا نہیں کرتے تھے اور یہاں تک کہ مذکورہ نظاموں کے زوال کے بعد اپنے ا قدار اورمعیاروں کو بروئے کار لانے میں مشکلات سے دوچار ہوئے اور اپنے نظریات میں کافی حدتک تبدیلی لانے میں مجبورہوئے ۔دوسری طرف سے دونوں مکاتب فکر فرانس اور روس کے لوگوں کے لئے اجنبی تھے ،اورعام لوگوں کے عقائد سے تضاد رکھتے تھے ،جوغالباًمذہبی تھے ۔لہذا یہ آئیڈیالوجیاں معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے اتحاد ویکجہتی کاسبب نہیں بن سکیں اورصرف روشن فکرطبقہ کی آئیڈیالوجی کے طورپرباقی رہیں ۔
جب کہ مکتب اسلام ۱۴۰۰سال قبل ایران میں پہنچا تھا اور لوگ اس سے ما ٔنوس تھے اورتمام لوگ اس کا عقیدہ رکھتے تھے اور اس کے ساتھ زندگی بسر کرچکے تھے اور اسلام نے ان کے تانے بانے میں اثرونفوذ کیا تھا ۔الہٰی تصور کائنات کے پیش نظریہ مکتب اپنے پیروکاروں کے لئے ایک وسیع افق فراہم کرتاہے اور اخروی سعادت کی نوید دینے کے علاوہ اسی دنیا کی مختصر مدت کے لئے بھی روزمرہ زندگی کے انفرادی اور اجتماعی امور میں ضروری لائحہ ٔعمل اور راہنمائی فراہم کرتا ہے ۔اس کے علاوہ دنیوی سعادت حاصل کرنے اور معاشرہ کا نظم ونسق چلانے کا دستور العمل بھی فراہم کرتا ہے ،بالخصوص شیعہ مکتب فکر نے اپنے انقلابی موقف کے پیش نظرایرا ن کے اسلامی انقلاب کے مراحل کے لئے مناسب راہ ہموار کی تھی ۔
اسلامی انقلاب کی آئیڈیالوجی کی کامیابی،ایران کے انقلاب کی قدرو منزلت کی علامت تھی ۔یہ آئیڈیالوجی عصر حاضرکے سیاسی مطالبات اور مادی مکاتب سے مأیوسی کا قوی جواب تھا ۔یہ آئیڈیالوجی مذہب سے مقابلہ کرنے والے کمیونزم پر قابل توجہ امتیازرکھتی تھی ۔اسلامی انقلاب نے کمیونزم کے مانند مذہب کی جگہ پر نئی چیزتخلیق کرنے کے بجائے موجود سرگرم مذہب سے استفادہ کیا اور سیاسی میدان میں جنگ کے لئے ضروری آئیڈیالوجی کے اسلحہ سے لیس ہوا اور اس کام سے ،عالمی تاریخ کی ایک بڑی اور ممتازمدد کی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] اس سلسلہ میں رو بسپیر نے ایک دلکش مطلب بیان کیا ہے :تقریباًتمام یورپی ممالک میں طاقت کے تین مراکز ہیں :بادشاہی ،اعلی طبقہ کے لوگ اور عوام ،کہ البتہ عوام فاقد قدرت ہوتے ہیں۔ ان حالات میں ایک انقلاب صرف تدریجی مراحل کے نتیجہ میں رونماہوسکتاہے ۔وہ مراحل ایسے شرفا ء ،علماء اور دولتمند وں سے شروع ہوتے ہیں جن کی پسماندہ لوگوں کی طرف سے حمایت کی جاتی ہے ۔وہ بھي اس وقت جب ان کے منافع کا مسلط طاقت یعنی بادشاہی نظام سے ٹکرأو پیدا ہوتاہے ۔اس وجہ سے فرانس میں پہلے شرفاء ،علماء اورثروتمندوں نے انقلاب کو اصلی تحرک بخشا اور لوگ بعدمیں میدان میں اتر آئے جنھوں نے ابتدائی حرکت شروع کی تھی انہوں نے بعد میں توبہ کیا یاکم از کم جب دیکھا کہ ممکن ہے لوگ اقتدار پر قابض ہوجائیں تو وہ انقلاب کو روکنے کی آرزو کرنے لگے تھے ۔لیکن حقیقت میں یہ وہی تھے جنہوں نے انقلاب کا آغازکیااور ان کے غلط مقابلہ اور محاسبہ کے بغیرلوگ ابھی تک ظلم کے تسلط میں ہوتے ۔
[2] 1-George Brazilling,Newyork,1965,p.137.A History of Modern France, Alfred Cobban، ترو تسکی اعتراف کرتاہے کہ اگرہم یہ کہیں کہ روس کاانقلاب بتروگراد کے توسط سے رونما ہوا اور باقی ملک نے اس کی پیروی کی تو مبالغہ نہیں ہے ۔ بترو گراد کے علاوہ کہیں اور مبارزہ نہیں تھا ……انقلاب ایک ایسے شہر میں حرکت پیداہونے سے رونماہواکہ زیادہ سے زیادہ ملک کی آبادی کے سترویں حصہ کو تشکیل دیتا تھا اور تمام ملک ایک انجام پائے کام کے مقا بلہ میں قرار پایا ۔T.H.green Comparative Revolutionary, prenticehall,newjersey,busa,1974.p.49 Zagorin'theories of Revolution of Contemporary Historiography,political Science Quaterly,88,March 1973,p.34
Add new comment