باقر العلوم امام خامس حضرت محمد باقر علیہ السلام کے مزار مقدس کو بھی غیبت کے پردوں میں چھپا دیا اور ہمارے چھٹے آقا امام جعفر صادق علیہ السلام جو کبھی اسی مدینہ آمنہ میں مسند علم و فقاہت پر جلوہ افروز ہوتے تھے تو آپ کے لبوں سے نکلے ہوئے ہر حرف ہر لفظ ہر جملہ اور ہر عبارت کو عقیدت و مودت ، تحقیق و جستجو، بصیرت و بصارت، شعور و آگہی علم و حلم ، کمال و جمال ، کی صورت نہارا جاتا تھا جو ایک وقت میں چار ہزار طلبہ میں رزق علم تقسیم کرتا تھا اس معلم و مفسر ادیب و طبیب و خطیب عظیم و باوقار کی قبر عالی وقار کو بھی خاموشی کے نہاں خانوں میں چھپا دیا گیا ۔
مادر ابوالفضل العباس حضرت فاطمہ کلابیہ الملقب بہ ام البنین جو مومنات الصالحات کی قدوہ اور رہبر زمان تھی جن سے آج بھی توسل باعث اجابت ہے جیسی عظیم ذات کی قبر مطہر بھی بے نشان کردی گئی اور بقیع الغرقد میں جتنی بھی معروف شخصیات کی قبریں تھیں سب سے عناوین محبت کو حذف کرکے اپنے لیے لعنت کے طوق کو حکومت وقت نے لازم کر لیا ہے ۔
مقام حیرت یہ ہیکہ
یہ کیسی دو رخی ہے
یہ کیسی بے بسی ہے
یہ کیسی بیکسی ہے
یہ کیسی زبر دستی ہے
مسجد نبوی کے صحن میں خوبصورت مناروں کا ہجوم روشنیوں سے لبریز چھتریاں موسم کے اعتبارات کی منظر کشی کرتی ہوئی مگر بقیع الغرقد میں اب نہ تو وہ غرقد یعنی جھاڑیاں ہی جھاڑیاں ہیں نہ سبزہ زاریاں ہیں نہ لہلہاتے ہوئی پھلواریاں ہیں بلکہ صرف ویرانیاں ہی ویرانیاں ہیں سونا پن ہی سونا پن ہے ، صحن روشنیوں کے جھومروں سے جھوم رہا ہے مگر بقیع میں چراغاں بھی نہیں ہے صحن مسجد نمازیوں سے چھلکتا ہے مگر بقیع بوقت نماز تنہائیوں میں ڈوبا ہوتا ہے ۔
مسجد کا داخلی اور خارجی حصہ چوبیس گھنٹہ کھلا رہتا ہے مگر بقیع کو صرف نماز عصر اور نماز صبح کے وقت ایک ساعت کے لیے کھولا جاتا ہے ، اسمیں بھی خیانت وقت دکھا کر عداوت عصر رواں کا اظہار کیا جاتا ہے ، جسمیں زائر صرف ایک طواف کی شکل میں گردش کرتا ہے ، صحن حرم میں آب زمزم کی سبیلیں ہیں مگر بقیع تشنگی کا صحرا بنا ہوا ہے ، مالک کوثر و تسنیم وجہ بقاء زمزم شیریں کے مزاروں کی سرحدوں پر عطاش علم و فکر کی حاضری ہے ، صحن مسجد میں خوبصورت دیدہ زیب سفید و سیاہ سنگ مرمر جبکہ اشرف خلایق کے مزاروں کی خاک کنکریوں اور پتھروں سے بھری ہوئی بیابانوں کی مانند نظر آرہی ہے ، صحن میں ہر طرف قطب مینار کے جیسے دیدہ زیب چھتریوں والے منارے اور کنگورے مگر قبروں پر رکھے ہوئے ، آل سعود کی شکلوں کے جیسے کالے نوکیلے، پتھر سنگ اسود جسکی سلامی کو بڑھے ان کے مزاروں پر ایسی بے رونقی کی ناکام کوششیں مگر جب صبح کی نماز کے بعد قافلہ مودت چلا ہے تو وہ منظر بھی دیکھنے کے لائق تھا کہ ہمارا ہر قدم باطل کے سینہ پر ایک دستک دے رہا تھا جسکی صدائے بازگشت کسی دن ضرور حکومت کے کان میں بہرا پن پیدا کرے گی مگر لمحہ فکریہ ہے ۔
Add new comment