فرانس اور روس کے انقلاب کے درمیان انقلابِ اسلامی کا امتیاز

Thu, 02/03/2022 - 20:05

اب یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اگرہم فرانس اور روس کے انقلابوں کا نام عظیم انقلاب رکھیں تو اسلامی انقلاب کا کیا نام رکھیں؟ اگر اسلامی انقلاب ایک حقیقی انقلاب ہے توفرانس اور روس میں رونما ہونے والی چیز کا کیا نام رکھا جائے؟ بظاہر اسکاچیل کاکہنا حق ہے کہ: فرانس اور روس کے انقلاب آگئے اور ایجاد نہیں کئے گئے۔ ایران کا اسلامی انقلاب آیا نہیں بلکہ موجودہ حالات کے پیش نظر ایجاد کیا گیا، وہ بھی نہ سادگی میں بلکہ تمام ملک کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھر پور کوششوں،قدرتمند رہبری اور دسیوں ہزارانقلاب کے عاشقوں کی عظیم قربا نیوں کی بھاری قیمت اداکرکے۔

فرانس اور روس کے انقلاب کے درمیان انقلابِ اسلامی کا امتیاز

یوں تو دنیا میں بہت سے انقلابات آئے لیکن جمہوریہ اسلامی ایران میں آنے والا انقلاب اپنے بعض اہم خصوصیات کے ساتھ بہت نمایاں ہے ہم یہاں فرانس اور روس میں پیش آنے والے انقلاب کے ساتھ ایک تقابلی مطالعے کے طور پر ان انقلابوں کے اہم امتیازات کا جائزہ لیتے ہیں۔
۱۔ فرانس اور روس کے انقلابوں میں انقلاب کے رہبر معاشرہ کے متوسط اور اونچے طبقہ سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ایران کے اسلامی انقلاب کے رہبر معاشرہ کے محروم اور پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔
۲۔ فرانس اور روس کے انقلابوں میں ،بالخصوص روس کے انقلاب میں رہبرایک ایسے طبقہ کے مدافع اور نمائندے تھے جس سے وہ خود تعلق نہیں رکھتے تھے ،لیکن اسلامی انقلاب میں انقلاب کے رہبر ایسے طبقہ کے مدافع تھے جس سے خود تعلق رکھتے تھے۔
۳۔ فرانس اور روس کے انقلابوں میں رہبری کی باگ ڈور تعلیم یافتہ اور روشن فکر طبقہ کے ہاتھ میں تھی اور اونچے طبقہ کے لوگ اور روحانی انقلاب دشمنی کا رول ادا کرتے تھے ۔جبکہ اسلامی انقلاب میں انقلاب دشمن کا کردار دائیں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے روشن فکر انجام دیتے تھے، اور علماء ،انقلاب کی ہدایت اور رہبری کارول ادا کرتے تھے ۔
۴۔ فرانس اور روس کے انقلابوں میں ہم رہبری کی مذکورہ تین خصوصیتوں والے کسی شخص کا مشاہدہ نہیں کرتے ہیں جو اسلامی انقلاب کے رہبر کے مانند آئیڈیا لوجی کو پیش کرنے،انقلاب کی کمانڈ سنبھالنے اور انقلاب کے بعد تعمیر وترقی میں ہدایت کرنے کی صلاحیتوں کا مالک ہو ۔
۵۔ فرانس کے انقلاب میں ،لافائیٹ،روبسپیر اور ڈوک ڈورلئان جیسے چہرے نظر آتے ہیں کہ ان میں کسی ایک نے انقلاب کے دوران اور اس کی کامیابی کے بعد پوری مدت میں مکمل طورپر انقلاب کی رہبری نہیں کی ہے ۔
۶۔ روس کے انقلاب میں معروف اورنمایاں چہرہ ‘‘لینن’’ہے۔ وہ حقیقت میں امتیازات استعداد اورغیر معمولی ذہانت کامالک تھا اور اس نے اکتوبر۱۹۱۷ء کے انقلاب کی کامیابی میں مرکزی اوراصلی کردار اداکیا،جبکہ اسی سال فروری میں رومانوف خاندان کی حکومت کے زوال میں بالکل کوئی رول ادا نہیں کیا۔ زینوو لیف،کامنف ،استالین ،تروتسکی اور کرنسی جیسے چہرے بھی خاص شہرت رکھتے تھے لیکن انہوں نے بھی حکومت کے زوال میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ حقیقت میں زار حکومت کا زوال ایک خود بخود وجودمیں آئی حرکت کے نتیجہ میں اور رہبری کے بغیرانجام پایا۔
۷- فرانس اور روس کے انقلاب نہ صرف حکومت کے خلاف بلکہ روحانیت اور کلیسا کے خلاف بھی اٹھے تھے۔ فرانس میں کلیسا فرانسیسی ہوگیا اور واٹیکان کے پاپ کے دائرۂ اختیار سے خارج ہوگیا۔ روس میں کلیسا مسترد اورمغلوب ہوگیا ۔جبکہ ایران کے اسلامی انقلاب میں تمام شیعہ علماء نے حکومت کے خلاف قیام کر کے انقلاب کی رہبری کی۔

ظاہر ہے کہ اسلامی انقلاب ،فرانس اور روس کے انقلابوں کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ عظمت کا مالک تھا۔اسلامی انقلاب کی کامیابی ،اساسی۔اکیڈمک مراکز میں حیرت کا سبب بنی کیونکہ گزشتہ انقلابوں کے مطالعات کی بنیاد پر ،کسی صورت میں تصور نہیں کیا جاسکتاتھا کہ ایران میں اس قسم کا حادثہ رونماہوگا۔

                                                 اس سلسلہ میں ٹڈا اسکاچیل کہتا ہے:
 ‘‘شاہ کی حکومت کا زوال اور ۱۹۷۷ء سے۱۹۷۹ء تک ایران کی انقلابی تحریک کا آغازغیر ملکی ناظرین کے لٔے ایک اچانک حیرت کا سبب تھا ۔شاہ کے دوستوں سے لے کراخباری نمائندے اور سیاسی واجتماعی علوم کے دانشور، من جملہ مجھ جیسے انقلاب کے ماہر،سب کے سب اس انقلاب کے حوادث کا تعجب اور ناقابل یقین حالت میں مشاہدہ کررہے تھے۔ اس سے بڑھ کر، ایران کا انقلاب قاعدہ اور طبیعت کے بالکل خلاف ایک حادثہ تھا۔ یہ انقلاب یقینا ایک سماجی انقلاب ہے بہر حال انقلاب کے عمل ،بالخصوص شاہ کے زوال کا سبب بننے والے حوادث نے فرانس اور روس کے انقلاب کے بارے میں ہمارے تقابلی مطالعہ کی بنیاد پر پیش کئے گئے اسباب وعلل کو مسترد کردیا ۔ایران کا انقلاب واضح طورپر ایک عوامی انقلاب تھا اور اس انقلاب نے ایرن میں ثقافتی ،اجتماعی اور اقتصادی ،اجتماعی روابط کی بنیادوں میں اس قدر تبدیلی ایجاد کی کہ حقیقت میں یہ عظیم اجتماعی ،تاریخی انقلابوں کا ایک نمونہ ہے ۔[1]

                                                 خلاصہ کے طورپرہمارامطالعہ یہ بتاتا ہے کہ فرانس اور روس کے انقلاب میں سے کسی ایک میں بھی ہم کسی ایسے چہرہ کو نہیں پاتے جس میں نظریہ پیش کرنے اور انقلاب کی کمانڈ سنبھالنے کی خصوصیات موجود ہوں۔جن اشخاص کا ہم نے نام لیا ان میں سے کوئی بھی انقلاب کا نظریہ پیش کرنے والانہیں تھا اور نہ اس کو کنٹرول کرنے والا، بلکہ یہ انقلاب کے بعد والی حکومتوں کے معمار تھے۔ وہ ایسے اشخاص تھے جنہوں نے نظام کے زوال کے بعد اقتدارہاتھ میں لے لیا اور بعد والے حالات پر اثر ڈالا۔ جبکہ اسلامی انقلاب میں رہبرانقلاب حضرت امام خمینیؒ نے ایک دینی مرجع تقلید کی حیثیت سے اوراپنی غیر معمولی ذہانت،قدرت اور بے مثال خصوصیات کے پیش نظر ۲۵سال کی مدت میں نظریہ پیش کرنے والے،کمانڈر اور انقلاب کے معمارکاعہدہ احسن طریقے پر سنبھال کر اپناکردار ادا کیا ۔

                                                 اب یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اگرہم فرانس اور روس کے انقلابوں کا نام عظیم انقلاب رکھیں تو اسلامی انقلاب کا کیا نام رکھیں؟ اگر اسلامی انقلاب ایک حقیقی انقلاب ہے توفرانس اور روس میں رونما ہونے والی چیز کا کیا نام رکھا جائے؟ بظاہر اسکاچیل کاکہنا حق ہے کہ: فرانس اور روس کے انقلاب آگئے اور ایجاد نہیں کئے گئے۔ ایران کا اسلامی انقلاب آیا نہیں بلکہ موجودہ حالات کے پیش نظر ایجاد کیا گیا، وہ بھی نہ سادگی میں بلکہ تمام ملک کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھر پور کوششوں،قدرتمند رہبری اور دسیوں ہزارانقلاب کے عاشقوں کی عظیم قربا نیوں کی بھاری قیمت اداکرکے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے رونما ہونے اور کامیابی نے تمام دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] Theda Skocaopol ''Rentiorstate and Shia Islam in the Iranian Revolution'' Theory society USA vol.no.11.3'p284'1982

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 16 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 41