اگر ہم حقیقت میں علاقہ کی سطح پر اسلامی انقلاب کے مسائل پر نظرڈالیں ،تو مشاہدہ کریں گے کہ یہ انقلاب اپنے پیغام کو دنیا کے محروم ومستضعف لوگوں تک پہنچا نے اورایک نمونہ اور مبارزہ کے طورپر اپنی حیثیت کو مسلمانوں میں پہچنوانے میں کامیاب ہوا ۔دوسرے الفاظ میں اس لحاظ سے انقلاب برآمد ہونے میں کامیاب رہا اور اس وقت فلسطین کی تحریک،ایک دوسرااسلامی انقلاب کا روپ اختیار کرچکی ہے اوردنیا والوں کے افکار کو اپنی طرف جذب کر چکی ہے۔
ملت فلسطین جو نصف صدی سے زیاہ عرصہ کے دوران صہیونزم کے ساتھ بر سر پیکار رہ کر اس حکومت کے ظلم وجبر کو برداشت کرچکی ہے ،ہر زمانہ میں اپنے عرب بھائیوں میں سے بعض افراد، عرب دنیا کے ایک رہبر اورفلسطین کی گوریلا تنظیموں سے اُمید باندھی ہوئی تھی ۔مدتوں تک جمال عبدالناصر (مصر کے سابق صدرجمہوریہ) کے ‘‘پان عربی ازم ’’ سے اُمید لگائے ہوئے تھی ،لیکن جمال عبدالناصر کے جانشین اور نائب نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی دنوں میں ،اپنی پالیسی بدل دی اور بیت المقدس کاسفر کیا ،اور اسرائیل کے سر براہوں سے ملاقات کرکے فلسطین کی تحریک پر کاری ضرب لگا دی اور سرانجام ۱۹۷۹ء میں کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر اپنے آپ کو فلسطین کے حامیوں کے لسٹ سے خارج کیا اور اسرائیل کے ساتھ دوستی اورمحبت کاہاتھ ملایا ۔اس جرم کے ردِّعمل کے طورپر امام خمینیؒ کے حکم سے مصر کے ساتھ ایران نے تعلقات توڑدیئے ۔فلسطینیوں نے اگرچہ مصر کو اپنی تحریک کے حامیوں کے پیش قدم گروہ کے عنوان سے کھو دیاتھا ،لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی اوراسرائیل کی حامی شاہ کی حکومت کے زوال نے ان کے لیے ایک بہتر تحفہ پیش کیا۔
فلسطین کی آزادی کی تحریک کے سربراہ ،یا سرعرفات پہلے شخص تھے جنھوں نے انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران کاسفر کیا اورعوام اورحکومت کے ذمہ داروں کی طرف سے ان کا والہانہ استقبال کیاگیا ۔انقلاب کے بعداکثر اجتماعات میں ‘‘آج ایران کل فلسطین ’’کانعرہ سننے میں آتاتھا۔ یاسر عرفات خیال تھا کہ وہ اسلامی انقلاب اورایرانی عوام کو اپنے مقاصد کے لئے پشت پناہ اور وسیلۂ کے طورپراستعمال کرسکتاہے،لیکن وہ اس حقیقت سے غافل تھا کہ اسلامی انقلا ب اور اس کا رہبر امام خمینیؒ فلسطین کے مسئلہ کے بارے میں اپناخاص نقطہ نظر اور پروگرام رکھتے ہیں جو لازمی طورپر عرفات کے پروگراموں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے ۔اس کے باوجود کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اسرأیل کے سفارت خانہ کو عرفات کے نمائندہ کے اختیار میں دیا تاکہ وہیں پر فلسطین کا سفارت خانہ کھولاجائے ،جلدی ہی عرفات اوراس کے ساتھیوں کے اسلامی انقلاب کے قائدین سے اختلافات آشکار ہوئے اور عرفات اسلامی انقلاب کے دشمنوں ،جیسے مجاہدین خلق اور حکومت عراق سے جاملا اور اس کی سازش کاری کا طریقہ ،خود ایک گریلاتنظیم کا لیڈر ہوتے ہوئے ،رفتہ رفتہ آشکار ہوا ۔جو یہ اعتقاد رکھتاتھا کہ اسرائیلیوں کو دریا میں ڈالناچاہئے ،وہ اپنے موقف سے تدریجاًپیچھے ہٹ گیا اور ملت فلسطین کے جانی دشمنوں کے ساتھ ہاتھ ملالیا اور امریکہ کی حمایت کی اُمید پر اپنے اس قول کے مطابق کہ "اگر ممکن ہو سکے گا تو ایک گدھے کی پشت پر بھی فلسطینی حکومت کو تشکیل دے گا" قدم قدم پر سازش کاشکار ہوتاگیا۔
عرفات کی طرف سے شرمناک سازش "اسلو معاہدہ" کو قبول کرنے سے اسلامی انقلاب کی دوسری دہائی کا آغازہوا۔اسلامی انقلاب نے سازشی منصوبوں کی بھرپورمخالفت کی اور یہ مخالفت ایسی حالت میں تھی کہ اکثرعرب اورمسلم ممالک نے اس سازش کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔
انقلاب کے قائدین اوراسلامی جمہوریہ کے نظام کے نظریہ کے مطابق،فلسطین کا مسئلہ نہ صرف دنیائے عر ب کا مسئلہ ہے بلکہ عالم اسلام کا مسئلہ ہے ۔امام خمینیؒ کی طرف سے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو "یوم قدس" کے عنوان سے معین کرنا اسی امر کی یاد ہانی تھی ۔اسلامی انقلاب کے نظریہ کے مطابق اسرائیل کی صہیونی حکومت طاقت کے علاوہ کسی اور راہ حل کو نہیں جانتی ہے ،اس لئے طاقت کا مقابلہ طاقت سے ہی کیا جانا چاہئے ۔ملت فسطین کو پارٹیوں اور گروہوں کی سیاست سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے ،بلکہ اسے خود قیام کرکے ایران کے لوگوں کی طرح اپنا حق حاصل کرلیناچاہئے۔
لبنان میں حزب اللہ کے توسط سے کثیر الاقوام اور اسرائیلی فوج کے مقابلہ میں حاصل کی گئی کامیابیاں صرف عقائد اور پختہ ایمان کی بنیادوں اور شہادت کے اصول پر بھروسہ کرکے حاصل ہوئی ہیں اور یہ بذات خوداس علاقہ میں اسلامی انقلاب کے اثرات میں سے ایک اثر تھا ،جس نے انقلاب کے قائدین کے دعویٰ کا ایک مناسب نمونہ فراہم کیا ہے اور سرانجام فلسطین کے عوام بالخصوص نوجوان نسل نے ان سازش کا ر قائد ین سے نااُمید ہو کر عوامی مبارزہ کے راستہ کو منتخب کیاہے اور اس طرح"انقلابِ سنگ" کا آغازہواہے۔
اسلامی انقلاب کی دوسری دہائی"انتفاضہ" اور"انقلاب سنگ" کے نام کی ایک نئی موجود سے رو برو ہوئی ۔انتفاضہ نے اپنے راستہ میں اسلامی انقلاب سے درس حاصل کرکے صہیونیوں کے خلاف اپنے انتھک اورمسلسل مبارزہ کا آغازکیاہے اور آگے بڑھ رہاہے اور اس کے علاوہ حماس اور جہاد اسلامی جیسی تحریکیں جو مکتب اسلام پر بھروسہ کر کے تشکیل پائی ہیں ،نے عرب دنیا میں پائی جانے والے مادّی نظریات سے اپنی امیدیں توڑ دی ہیں ۔
اس تحریک کا یہ اثر ہوا ہے کہ وہ سارے گروہ اورپارٹیاں جو کبھی نیشنلزم ،سوشلزم اورلیبرل ازم کی آئیڈیالوجیوں کے معتقد تھیں ،آج اس بات کا اعتراف کرنے لگی ہیں کہ فلسطین کی نجات کا راستہ صرف مکتب اسلام میں ہے۔
صہیونیوں اور حزب اللہ کے درمیان کسی قسم کے معاہدہ کے بغیراورصرف شہادت طلب کار کردگیوں کے نتیجہ میں جنوب لبنان سے اسرئیلوں کا بھاگ جانا،فلسطینیوں کی قدرت میں اضافہ کاسبب بنا ۔اس طرح "انقلاب سنگ" اور"انتفاضہ" "قدس" کے مقابلہ میں اسرائیلی پر یشان وحیران ہیں اور عرفات کی خود مختارحکومت ہمیشہ کی نسبت اسلو معاہدہ سے نجات پانے میں عاجز اور پریشان ہے ۔اور یہاں تک کہ قدامت پسند عرب حکومتیں بھی دنیائے عرب کے عوامی دباؤکے نتیجہ میں انتفاضہ تحریک کی حمایت کرنے پر مجبور ہوئیں۔
اگر ہم حقیقت میں علاقہ کی سطح پر اسلامی انقلاب کے مسائل پر نظرڈالیں ،تو مشاہدہ کریں گے کہ یہ انقلاب اپنے پیغام کو دنیا کے محروم ومستضعف لوگوں تک پہنچا نے اورایک نمونہ اور مبارزہ کے طورپر اپنی حیثیت کو مسلمانوں میں پہچنوانے میں کامیاب ہوا ۔دوسرے الفاظ میں اس لحاظ سے انقلاب برآمد ہونے میں کامیاب رہا اور اس وقت فلسطین کی تحریک،ایک دوسرااسلامی انقلاب کا روپ اختیار کرچکی ہے اوردنیا والوں کے افکار کو اپنی طرف جذب کر چکی ہے۔ اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ یہ ناقابل سازش طریقہ جس طرح ایران اور لبنان میں بار آور ثابت ہوا ہے ،فلسطین میں بھی اپنے مقصد،یعنی صہیونیوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوگا اور زمانہ کسی صو رت میں سامراج اورصہیونزم کے حق میں پلٹنے والا نہیں ہے ۔اس کے باوجود یہ بات ناقابل فراموش ہے کہ اسلامی انقلاب کے اثرات صرف لبنان اور فلسطین کی سرزمین تک محدود نہیں تھے بلکہ اسلامی تحریکوں کو ترکیہ، الجزائر اوردوسرے تمام اسلامی مما لک میں تقویت بخشنے میں اسلامی انقلاب کا کردار ناقابل انکار ہے۔
Add new comment