آٹھ شوال المکرم کی یہ تاریخ گردش لیل و نہار کے بعد جب بھی آتی ہے اپنے اندر ایک خاموش کربلا کا غم سمیٹے ہوتی ہے ، جہاں اہل شعور اور اہل ضمیر کی نگاہیں جھک جاتی ہیں ، جہاں اک سچا مسلمان ضمیر کی عدالت میں اپنی خاموشی کا مجرم گردانا جاتا ہے ، یہ تاریخ آل سفیان اور آل سعود کی دہشت گردی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ آل سعود کو آل رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کس قدر عقیدت و محبت ہے ، اگر یہ دیکھنا ہے تو اک بار بقیع کی زیارت کا ارادہ ضرور کیجئے ، حقیقتیں جتنا قریب سے دیکھی جاتی ہیں یقین اتنا ہی محکم ہوتا ہے دوریاں فاصلے بڑھاتی ہیں قربتیں حقیقتیں دکھاتی ہیں ۔
حیرت و استعجاب قلم فکر کے قدموں میں زنجیریں ڈال رہا ہے ، بے چینی اور بے یقینی سی کیفیت ہے ، جو منظر نگاہوں نے دیکھا اسے خوابیدگی کہوں یا خواب پریشاں ، روشنیوں کے شہزادوں کے شہر خموشاں میں تاریکیوں کا بسیرا ، عظمتوں کے علاقوں میں ظلمتوں کی آندھیاں ، ایک زمانہ کے بعد میری آنکھوں کی فاقہ شکنی ہوئی ، جب رزق زیارت کا آب زلال زمزم کے ساحل سے میسر ہوا ، جس شوق وصال سے میں بقیع کی جانب لپکا اس نے میرے وجود کو لرزہ بر اندام کردیا ایسا لگا جیسے آل سعود کے بے رحم ہاتھوں نے میرے شعور کی جھیل میں ایک نوکیلی مثل خنجر کوئی کنکری پھیک دی ہو جس نے میرے وجود کی تہ تک جاتے جاتے نہ جانے کتنے دایرے بنادیئے مگر ہر دائیری شکل الگ الگ رنگ و آہنگ کے خیالات کی گولائی میں ڈھل رہی تھی ، سرمایہ فکر میں آگ لگی تھی ذہن آتش فشاں بنا تھا چشم مودت و عقیدت سے مسلسل اشکوں کی روانی تھی اور زیر لب بس یہی فقرے تھے : ’’ واہ غربتاہ وا حسرتاہ ‘‘ ، ہائے افسوس جن ذوات کے وجود کی برکت سے کائنات کو زیور وجود سے آراستہ و پیراستہ کیا گیا آج انہیں کی قبروں کے نشان تک کو بے نشان کردیا گیا ، امام علیہ السلام اور عوام کی قبر میں کوئی امتیاز نہیں رکھا گیا ۔
مضراب فکر کے سازوں کو نہ چھیڑا جائے
میزان عدل کے تقاضوں کو نہ کھولا جائے
ایک طرف مسجد نبوی کی پر رونق فضا تو دوسری طرف بقیع کی سرحد پر امڈی ہوئی قضا ، جس کی چادر نے رسول اعظم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو رزق شفا عطا کیا ہو ، آج اس کی قبر مطہر کی زیارت کا رزق وفا گنہگاروں کو نصیب نہیں ہو رہا ہے ، عجب سناٹا عجب ویرانی ، صبح کی پہلی کرن مگر غم سے بوجھل ، میرا سراپا اور بارگاہ عالی وقار کونین کی شہزادی ام الآئمہ ام ابیھا انھیں کیسے اور کہاں تعزیت و تسلیت دوں ، کس نشان پر جاوں ، میری نگاہوں پر معصیت کے ضخیم پردے ہیں یا آل سعود کی عداوت کے چھلکتے ہوئے جاموں کی حقیقت نے تربت کی غربت کا اظہار کیا ہے ۔
شہزادہ صلح و آشتی ،امیر امن و امان ، حریم اہل ایمان ، نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم جگر گوشہ بتول، جانشین مرتضی علیہ السلام یعنی حضرت حسن علیہ السلام سبز قبا کی قبر مطہر کا نشاں تک بھی باقی نہ رکھا اور اسی طرح تحریک نینوا کے امین ، پاسبان قافلہ حسینی ، شہنشاہ حریت، امیر انقلاب، فاتح کوفہ و شام ، جسکی زنجیروں کی آہٹ سے حکومتوں کے تخت و تاج لرزنے لگتے تھے ، جس کے لب و لہجہ کی سحر بیانی نے شام میں شام کے خوں آشام شب باشوں کی نیندیں حرام کردی تھی ، اس اسیر و قیدی امام علیہ السلام کے جنازہ کو جس معتبر زمین عقیدت نے چھپایا افسوس صد افسوس کے اس خطہ مطہرہ کو بھی پردہ خفا میں ڈھکیل دیا گیا ۔
Add new comment