امام مھدی المنتظر (عج)

خلاصہ: ہمارے گناہ رکاوٹ ہیں کہ ہم اپنے وقت امام، امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) سے ملاقات کریں۔

خلاصہ: جب امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف)، اسلام کے احکام کو لوگوں کے سامنے پیش کرینگے تو لوگ یہ تصور کرینگے کہ ہمارے لئے ایک جدید دین کو پیش کیا جارہا ہے۔

خلاصہ: امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے ظھورکے بعد فرشتے اور جن بھی آپ کی مدد کرینگے۔

خلاصہ: جو لوگ تاریکیوں سے نکل کر روشنی کی طرف آتے ہیں وہ لوگ سوائے حقیقت کے کچھ نہیں دیکھتے۔

“اِنّی لَاٴَمٰانُ لِاٴَهْلِ الْاٴَرْضِ كَمٰا اَٴنَّ النُّجُومَ اٴَمٰانُ لِاٴَهْلِ السَّمٰاءِ” ”بے شک میں اہل زمین کے لئے امن و سلامتی ہوں، جیسا کہ ستارے آسمان والوں کے لئے امان کا باعث ہیں“۔[کمال الدین، ج 2، ص 485، ح 10]یہ کلام حضرت امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے اس جواب کا ایک حصہ ہے جس کو امام علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے جواب میں لکھا ہے، اسحاق نے اس خط میں امام علیہ السلام سے غیبت کی وجہ کے بارے میں سوال کیا تھا۔

اٴَمَّا الْحَوٰادِثُ الْوٰاقِعَةُ فَارْجِعوُا فیهٰا إِلٰی رُوٰاةِ حَدیثِنٰا، فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي عَلَیْكُمْ وَ اٴَنَا حُجَّةُاللهِ عَلَیْهِمْ؛”لیکن ہر زمانہ میں پیش آنے والے حوادث (اور واقعات) میں ہماری احادیث بیان کرنے والے راویوں کی طرف رجوع کرو، کیونکہ وہ تم پر ہماری حجت ہیں اور میں ان پر خدا کی حجت ہوں“۔[اعلام الوری، ج2، ص271]یہ حدیث ان مطالب کا ایک حصہ ہے جس کو امام زمانہ علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب کے سوالات کے جواب میں ارشاد فرمایا ہے۔

تاریخ کے پیش نظر یہ بات واضح ہے کہ جب تک لوگ نہ چاھیں اور سعی و کوشش نہ کریں تو حق اپنی جگہ قائم نہیں ہوپاتا، اور حکومت اس کے اہل کے ہاتھ وں میں نہیں آتی۔ حضرت علی ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کی تاریخ اس بات پر بہترین دلیل ہے۔

اٴَمّٰا وَجْهُ الْاِنْتِفٰاعِ بِي فِي غَیْبَتِي فَكَالْاِنْتِفٰاعِ بِالشَّمْسِ إِذٰا غَیَّبَتْهٰا عَنِ الْاٴَبْصٰارِ السَّحٰابُ؛”لیکن میری غیبت میں مجھ سے فیض حاصل کرنا اسی طرح ہے جس طرح بادلوں کے پیچہے چھپے سورج سے فیض حاصل کیا جاتا ہے“۔[کمال الدین، ج2، ص485]

خلاصہ: انتظار کرنے والے انسان کو ہر لحاظ سے تیار رہنا چاہئے چاہے فکری صورت ہو یا روحی، انتظام و اہتمام کا مسئلہ ہو یا عملی اقدامات ہوں۔

خلاصہ: جب تک خدا اپنی معرفت عطا نہ کرے تب تک ہم اس کے رسول کی شناخت حاصل نہیں کر سکتے اور جب تک رسول کو نہیں پہچانیں گے، اس وقت تک رسول کے جانشین کی معرفت کو حاصل کرنا اور اس پر ایمان رکھنا آسان نہیں ہے۔