گذشتہ سے پیوستہ
رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ کو ایک پیکٹ دیا تھا جس میں یوں تحریر تھا : میری لاڈلی بیٹی میں نے جو کچھ بھی اس میں تحریر کیا ہے اسے یاد رکھنا ؛ جسے بھی خدا اور قیامت پر ایمان ہوگا وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں دے گا ، جسے بھی خدا اور قیامت پر ایمان ہوگا وہ مہمان کا احترام کرے گا ، جسے بھی خدا اور قیامت پر ایمان ہوگا وہ نیک باتیں کرے گا یا خاموشی اپنائے گا ۔
امام علی علیہ السلام نے بھی اپنے بچوں امام حسن (ع) و امام حسین (ع) کو وصیت میں ارشاد فرمایا : اپ دونوں پڑوسیوں کو ہرگز فراموش نہ کریئے گا کیوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمیشہ اس بات تاکید فرماتے تھے ، آنحضرت (ص) نے پڑوسی کے سلسلہ میں کچھ اتنا زیادہ تاکید کی تھی کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ جیسے میرا پڑوسی مجھ سے میراث کا حقدار ہے ۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں : «جاءَ رجُلٌ إلى رسولِ اللّه ِ صلى الله علیه و آله فقالَ: یا رسولَ اللّه ِ، إنّی أرَدْتُ شِراءَ دارٍ، أینَ تأمُرُنی أشْتَری فی جُهَیْنَةَ أمْ فی مُزَیْنَةَ أمْ فی ثَقیفٍ أمْ فی قُرَیشٍ؟ فقالَ لَهُ رسولُ اللّه ِ صلى الله علیه و آله: الجوارُ ثُمَّ الدّارُ، و الرَّفیقُ ثُمَّ السَّفَرُ» ۔ (۱)
ایک مرد رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پہونچا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ (ص) میں گھر خریدنا چاہتا ہوں ، اپ راہنمائی فرمائیں کہ کس جگہ لوں ؟ جہينہ يا مزينہ يا ثقيف يا قريش کے درمیان ؟ انحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا: پہلے پڑوسی پھر گھر ، پہلے ہمسفر پھر سفر ۔
انسان کا اچھا پڑوسی بن کرنا رہنا صلہ رحمی کا مصداق ہے کہ جو انسان کی عمر میں اضافہ کا سبب بنتا ہے ، چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : «حُسنُ الجِوارِ یُعمِّرُ الدِّیارَ و یَزیدُ فی الأعْمارِ» ، (۲) پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ تمھاری عمر کو بڑھا دیتا ہے ۔
پڑوسی کا حق:
رسول اکرم صلى الله علیہ و آلہ وسلم نے پڑوسی کے حقوق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : «فى حُقوقِ الجارِ : إِنِ استَغاثَکَ أَغَثتَهُ وَإِنِ استَقرَضَکَ أَقرَضتَهُ وَإِنِ افتَقَرَ عُدتَ عَلَیهِ وَإِن أَصابَتهُ مُصیبَةٌ عَزَّیتَهُ وَإِن أَصابَهُ خَیرٌ هَنَّتَهُ وَإِن مَرِضَ عُدتَهُ وَإِن ماتَ اتَّبَعتَ جِنازَتَهُ وَلا تَستَطِل عَلَیهِ بِالبِناءِ فَتَحجُبَ عَنهُ الرّیحَ إِلاّ بِإِذنِهِ...» (۳)
تمھارے پڑوسی کا تم پر حق یہ ہے کہ اگر اس نے تم سے مدد مانگی تو اس کی مدد کرو ، اگر اس نے تم سے قرض مانگا تو اسے قرض دو ، اگر وہ نیازمند ہوا تو اس کی ضرورت کو پورا کرو ، اگر اس پر کوئی مصیبت آپڑی تو اسے اس وقت دلداری دو ، اگر اسے کوئی خیر و نیکی ملے تو مبارکباد پیش کرو ، اگر بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کے لئے جاؤ ، جب انتقال کرجائے تو اس کی تشیع جنازہ میں شرکت کرو ، اپنے گھر کو اس کے گھر سے زیادہ اونچا نہ بناؤ کہ اس کے گھر کی ہوا رک جائے مگر یہ کہ وہ خود تمہیں اس بات کی اجازت دے ۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: کوفی ، ابوعلی محمد بن اشعث ، الجعفريّات ، ص ۱۶۴ ۔
۲: کلینی ، اصول کافی: ج ۲، ص ۶۶۷، ح ۸ ۔
۳: شهید ثانی ، مسکّن الفؤاد، ص ۱۰۵ ۔
Add new comment