مناسبتیں
امام حسين عليه السلام : أنا قتيل العَبرَة ، لا يذكرني مؤمن إلاّ بكى؛میں کشتۂ اشک ہوں، مجھے رُلا رُلا کر قتل کیا گیا ، کوئی مؤمن ایسا نہیں ہوسکتا جومجھے یادکرے اور مجھ پر آنسو نہ بہائے۔[بحارالأنوار، ج۴۴، ص۲۸۴٫]
قال الرضا (ع) : من ترك السعي في حوائجه يوم عاشوراء ، قضى الله له حوائج الدنيا والآخرة؛جو کوئی عاشور کے دن دنیا کے کام کاج سے اپنے آپ کو دور رکھے گا، پروردگار اسکی دنیا و آخرت کی تمام ضرورتوں کو پورا فرما دیگا۔[عیون الاخبار،ص۲۹۹]
حضرت امالمومنین خدیجه (علیها السلام الله)کی شادی کے موقع پر انکی عمر کا ۲۵ سال ہونے کا اثبات
خلاصہ: امام حسین(علیہ السلام): اگر خدا مجھے دسیوں بیٹے بھی عطا کریگا تو میں انکا نام علی رکھونگا۔
خلاصہ: امام خمینی (علیہ الرحمہ) نے شاہِ ایران کے منظور شدہ قانون کے خلاف جب عاشورا کے دن تقریر کی تو یہ آپ کی رہبریت کا پہلا مرحلہ تھا جس میں لوگ انتہائی متاثر ہوئے۔
خلاصہ: امام خمینی (علیہ الرحمہ) کا گھرانہ عالم، فاضل اور مجاہد تھا، آپ کے والد گرامی کی مجاہدانہ زندگی تھی، آپ بچپنے میں ہی اپنے والد گرامی سے محروم ہوگئے۔ اس کے بعد اپنی والدہ اور پھوپھو کی نگرانی میں زندگی گزاری، یہاں تک کہ وہ بھی انتقال کرگئے جبکہ آپ پندرہ سال کے تھے
خلاصہ: امام خمینی (علیہ الرحمہ) نے اسلامی حکومت کو قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کی روشنی میں واضح کیا اور لوگوں کو اسلامی حکومت کے اصول سے روشناس کیا۔
خلاصہ: امام خمینی (علیہ الرحمہ) نے ایران میں جو انقلاب اسلامی قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے، اس کامیابی تک پہنچنے کے مختلف مراحل تھے، جن سے گزرنے کے بعد یہ عظیم کامیابی نصیب ہوئی۔ ان مراحل میں سے پہلے مرحلہ میں آپ کے چار بنیادی کارنامے ہیں۔
خلاصہ: امام خمینی (علیہ الرحمہ) کا تعلیمی دور ایسا دور ہے جس کا انقلاب میں بنیادی کردار ہے، کیونکہ قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات ہیں جو انسان اور معاشرے میں حقیقی طور پر اسلامی انقلاب لاسکتی ہیں۔
خلاصہ: انقلاب کے رہبران کے انقلاب کرنے میں مختلف طریقے کار ہوتے ہیں، مگر امام خمینی (علیہ الرحمہ) کا انقلاب اسلامی میں منفرد اور انوکھا طریقہ کار تھا۔