مناسبتیں
قرآن کریم کی آیات کا واضح اور روشن پیغام یہ ہے کہ خداوند متعال کی نصرت ان لوگوں کے شامل حال ہوگی جو اس کی اور اس کے دین کی مدد کریں گے جیسا کہ سورہ حج کی 40 ویں آیۃ شریفۃ میں آیا ہے : «وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزيزٌ؛ اور اللہ اپنے مددگاروں کی یقینا مدد ک
حضرت امام خمینیؒ اسلامی تحریک کی ابتداء سے بالخصوص اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اپنے بیانات اورتحریروں میں ہمیشہ اسلام اور اسلامی انقلاب کے نظریہ کے مطابق مطلوبہ عالمی نظام کی طرف اشارہ کرتے تھے۔امام کے فتویٰ نے ثابت کیا کہ ایک اسلامی رہبرکی سادہ تحریر مغربی دنیا کی سیکیورٹی کی مستحکم دیواروں کو عبور کرسکتی ہے اور مغرب کو اپنے ایک شہری کی حفاظت کے لئے سالہاسال تک حفاظتی فوج کی ایک بڑی تعداد کو تیار رہنے کا حکم دینے پر مجبور کرسکتی ہے۔
حضرت امام خمینیؒ نے اسی زمانہ میں ان تبدیلیوں پر غائرانہ نظرڈالی اور وہ اس سلسلہ میں فکر مند تھے کہ ایسانہ ہو کہ مشرقی بلاک کا زوال مغربی بلاک کی کامیابی ثابت ہواور مشرقی بلاک کے ممالک بھی مغرب اور امریکہ کی آغوش میں چلے جائیں اورمغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو نمونہ بنانے کی تشویق ہو۔انہوں نے گورباچوف کے نام لکھے گئے اپنے ایک تاریخی خط میں اسے ان خطرات سے آگاہ کیا اورمشرقی بلاک کی اصلی مشکل یعنی خداسے جنگ کے بارے میں اسے توجہ دلائی اور پوری طاقت سے اعلان کیا کہ اسلام کا سب سے بڑا اور طاقتوار مرکز،اسلامی جمہوریہ ایران سوویت یونین کے عوام کے عقیدتی خلاء کو پر کرسکتا ہے ۔
حقیقی امداد اور نصرت فقط خدا کی جانب سے ہے، خداوند متعال نے قران کریم میں فرمایا : «وَ مَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزيزِ الْحَكيم؛ اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے ، اللہ ہی صاحب عزّت اور صاحب حکمت ہے ۔ » (1) کیوں کہ پوری ہستی اور پورے جہان میں فقط و فقط خداوند متعال کی ذات
حضرت امام خمینی (رہ) اپنے جد حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ و آلہ اور دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت کے ائینہ دار ، نہایت ہی با اخلاق، شفیق اور مہربان شخصیت کے مالک تھے، عوام کیلئے اپ کی آغوش اور باہیں کھلی ہوئی تھیں اور اپ نے انہیں متحد رکھنے کی مکمل کوشش کی کہ جو ائمہ طاھرین کی سیرت
۱۹۸۰ءمیں امریکی سیاسی مفکر اور امریکہ کی خارجہ سیاسی کمیٹی کے رکن ہنری کسنجر ،جو پہلے سوویت یونین کے اثر ونفوذکو سب سے بڑا خطرہ جانتاتھا ،نے،اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مشرق وسطیٰ کے حوادث اور واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ،اپنے موقف میں تبدیلی لاکر اعلان کیا :اس علاقہ اور حقیقت میں مغرب اورامریک
اگر ہم حقیقت میں علاقہ کی سطح پر اسلامی انقلاب کے مسائل پر نظرڈالیں ،تو مشاہدہ کریں گے کہ یہ انقلاب اپنے پیغام کو دنیا کے محروم ومستضعف لوگوں تک پہنچا نے اورایک نمونہ اور مبارزہ کے طورپر اپنی حیثیت کو مسلمانوں میں پہچنوانے میں کامیاب ہوا ۔دوسرے الفاظ میں اس لحاظ سے انقلاب برآمد ہونے میں کامیاب رہا اور اس وقت فلسطین کی تحریک،ایک دوسرااسلامی انقلاب کا روپ اختیار کرچکی ہے اوردنیا والوں کے افکار کو اپنی طرف جذب کر چکی ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اگرہم فرانس اور روس کے انقلابوں کا نام عظیم انقلاب رکھیں تو اسلامی انقلاب کا کیا نام رکھیں؟ اگر اسلامی انقلاب ایک حقیقی انقلاب ہے توفرانس اور روس میں رونما ہونے والی چیز کا کیا نام رکھا جائے؟ بظاہر اسکاچیل کاکہنا حق ہے کہ: فرانس اور روس کے انقلاب آگئے اور ایجاد نہیں کئے گئے۔ ایران کا اسلامی انقلاب آیا نہیں بلکہ موجودہ حالات کے پیش نظر ایجاد کیا گیا، وہ بھی نہ سادگی میں بلکہ تمام ملک کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھر پور کوششوں،قدرتمند رہبری اور دسیوں ہزارانقلاب کے عاشقوں کی عظیم قربا نیوں کی بھاری قیمت اداکرکے۔
سماجی طاقت،ا ن سرگرم سماجی گروہوں سے تشکیل پاتی ہے جو مشترک ا قدار اور عقائد کی بنیادوں پر آپس میں نزدیک ہوتے ہیں۔ جب سیاسی طاقت ان کے ا قدار اور مطالبات کو پورا کرنے کی توانائی یا ارادہ نہیں رکھتی ہے ،تو سماجی گروہ اس سے مأیوس ہو کر ایسے رہبر یارہبروں کی تلاش کرتے ہیں جو ان کے نظریات اور مطالبات کو پورا کرسکیں ۔سماجی طاقت کی ایجاد میں ،تین بنیادی رکن قابل تشخیص ہیں: عوام،رہبری اور آئیڈیا لوجی ۔
جس دن آپ نے جناب امیرالمومنین حضرت علی (علیہ السلام) کے گھر میں قدم رکھا آپ کے بچوں سے مخاطب ہوکر پہلا جملہ یہ ارشاد فرمایا :
میں اس گھر میں آپ کی ماں بن کر نہیں آئی ہوں
میں کہاں اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد کہاں ؟