خلاصہ: امام خمینی (علیہ الرحمہ) نے شاہِ ایران کے منظور شدہ قانون کے خلاف جب عاشورا کے دن تقریر کی تو یہ آپ کی رہبریت کا پہلا مرحلہ تھا جس میں لوگ انتہائی متاثر ہوئے۔
امام خمینی (علیہ الرحمہ) کی رہبریت کو چار مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ان میں سے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ جب آپ سیاسی اور مذہبی رہبر کے طور پر منظرعام پر آئے اور پیاسے لوگوں کے جمّ غفیر نے آپ کو تیزی سے قبول کیا۔ یہ مرحلہ قانونِ "انجمنہای ایالتی و ولایتی" سے مخالفت کے اطلاعیہ سے آغاز ہوا اور اس کا عروج آپ کے اس معروف خطاب میں تھا جو ماہ محرم کے عاشورا کے دن تھا جس کا نتیجہ آپ کی گرفتاری اور ۱۵ خرداد کا قیام تھا اور یہ مرحلہ آپ کے ترکیہ جلاوطن ہونے سے اختتام پذیر ہوا جس کی وجہ آپ کی اس قانون سے شدید مخالفت تھی جو امریکہ اور شاہِ ایران کے درمیان طے پایا تھا۔
شاہ كى حكومت نے اس قانون كى منظورى دى جس كے تحت امرىكى فوجى مشن كے افراد كو سفارتكاروں كے ہم پلہ وہ حقوق دیے گئے جو ویانا كنونشن كے تحت سفارتكاروں كو حاصل ہیں اس كے معنى یہ ہیں کہ امرىكى جو چاہیں کرتے رہیں ان پر اىرانى قانون لاگو نہ ہو گا۔
دوسرے لفظوں میں: " اگر شاہ ایران كى گاڑی كسى امریكى كتے سے ٹکرا جائے تو شاہ كو تفتىش كا سامنا ہوگا لىكن كوئى امریكى خانساما شاہ ایران یا اعلى ترىن عہدے داروں كو اپنى گاڑی تلے روند ڈالے تو ایرانی بے بس ہوں گے اور انہیں کسی قسم کی قانونی کاروائی کا حق حاصل نہیں ہوگا"۔
اگلے دن امام خمینى (علیہ الرحمہ) نے مدرسہ فىضىہ قم مىں وہ شہرہ آفاق تقرىركى جو اىک عظىم انقلاب كا دىباچہ بن گئى۔
آپ نے اس تقریر کو آیت "انّا للہ و انّا الیہ راجعون" سے شروع کیا۔ آپ کا یہ خطاب ایسا شعلہ بیان تھا کہ لوگ اس قدر بے تاب ہوگئے کہ ان کے شدید گریہ کی آوازوں کی وجہ سے آپ کو اپنے خطاب کے دوران بار بار رکنا پڑا۔
آپ نے اس خطاب میں اپنے قلبی تاثرات کو بیان کیا اور ایران پر مسلط حکومتوں کی مذمت کی۔
Add new comment