مناسبتیں
ماہ مبارک رمضان کی فضلیت کے حوالے سے یوں تو کافی مقدار میں روایتیں موجود ہیں اور قران کریم نے بھی اس ماہ کی عظمت و بلندی کی جانب کافی حد تک اشارہ کیا ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی 185 ویں ایت شریفہ میں ایا ہے {شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآَنُ هُدًي لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَ
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت رسول خدا جب ماہ رمضان کا چاند دیکھتے تو قبلہ رخ ہو کر یہ دعا مانگتے
امام جعفر صادق علیہ السلام ایک دوسرے بیان میں ارشاد فرماتے ہیں : جناب عباس علیہ السلام نافذ البصیرت اورانتہائی دقیق تھے اور زیارت مقدّسه ناحیهٔ میں وارد ہوا ہے: «میں گواهی دیتا ہوں کہ آپ خدا رسول (ص) اور اپنے بھائی کے خیر خواہ تھے ۔ »
امام جعفر صادق علیہ السلام سے راوی نے سوال کیا اے (فرزند رسول) ! اس ماہ کا بہترین عمل کیا ہے؟ تو حضرت (ع) نے فرمایا : "صدقہ اور استغفار" اس ماہ کا بہترین عمل ہے ۔
پیشاور کی شیعہ مسجد میں نماز جمعہ کے دوران، تکفیری وھابیوں کے ہاتھوں ہونے والے خودکش دھماکہ میں، ڈھائی سو سے زیادہ بے گناہ نمازی، شھید اور زخمی ہوگئے، جس میں ایک ننھا نمازی بھی شامل ہے۔
پیشاور کا دلخراش سانحہ سنکر اور میڈیا کے ذریعہ نشر ہونے والے مناظر کو دیکھ کر سنگ دل انسانوں کے دل بھی لرز اٹھے ، جہاں ایک فرقہ اور ایک مکتب کے ماننے والوں کو اھل بیت رسول علیھم السلام کی محبت کی سزا میں گاہے بگاہے اپنے عزیزوں اور گود کے پالوں کی قربانیاں پیش کرنی پڑتی ہیں ۔
معاویہ کی موت کے بعد یزید ملعون نے مدینہ کے حاکم ولید کو خط لکھا کہ وہ فورا امام حسین علیہ السلام سے بیعت لے لے اور جب ولید نے شب کے سنٹاے میں حضرت (ع) کو بلا بھیجا تو حضرت (ع) اگلے دن پر فیصلہ ٹال کر دربار سے باہر نکل آئے اور مروان کے اصرار کے باوجود ولید نے حضرت (ع) کو جانے سے نہ روکا ۔
حکماء اور فلسفیوں کی باتیں کتابوں کی سطروں سے باہر نکل کر حقیقی دنیا میں بہت کم ہی پھیل پاتی ہیں جب کہ انبیاء کی تعلیمات عالمگیر بن جاتی ہیں۔ فلسفی جو کچھ دیتے ہیں وہ کسی ایسی دعا کی ایک قسم کی طرح ہے جو دعا کرنے والے کی مونچھوں کے بال سے اوپر نہیں بڑھتی اور لفظ و بیان کے مرحلے سے آگے نہیں بڑھ پاتی ، نہ کہنے والے میں ایمان و یقین پیدا کرتی ہے اور نہ سننے والے میں ایمان کی رمق ایجاد کرتی ہے۔
امیر المومنین علی(ع) کا نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں بیان مندرج ہے جہاں زمین و آسمان اور روئے زمین پر انسان کی تخلیق کا ذکر ہےوہیں اس کے بعد نبیوں اور رسولوں کی آمد کی حکمت کا مسئلہ اٹھایا گیا ہےاور اس موضوع کے ضمن میں عَالَمِ نفس اور عقل کی اسراز آمیز دنیا اور انسانی روح کا ذکر ملتا ہے جو کہ بہت ہی زیادہ توجہ طلب اور قابل اہمیت موضوع ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کی رسالت کے دفاع میں جناب ابوطالب (س) کے اقدامات اور ان کے موقف کی نثر اور نظم دونوں اصںاف سخن میں صراحت ہے جس کے بیان سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔