حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے قران کریم کی تلاوت کے سلسلہ میں فرمایا:«تلاوت کا حق یہ ہے [انسان] قران کے احکام پر عمل کرے اس کے دیئے ہوئے وعدہ پر امید رکھے اور جن ایات میں عذاب الھی کا وعدہ کیا گیا ہے اس سے دل میں خوف لائے»۔ (۱)
شیخ بہائی کے والد نے اس روایت کے ذیل میں اپنے فرزند کہ یعنی شیخ بہائی کو وصیت کی کہ پورے قران میں سے تین ایات پرضرور عمل کرنا کہ تمھاری سعادت اور کامیابی کے لئے وہی کافی ہیں ۔
۱: سورة قصص، آیت نمبر ۸۳ ۔ «یہ دار آخرت وہ ہے جسے ہم ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں بلندی اور فساد کے طلبگار نہیں ہوتے ہیں اور عاقبت تو صرف صاحبانِ تقویٰ کے لئے ہے»۔ (۲)
اس ایت کریمہ میں بہشت میں جانے کے لئے تین شرط رکھی گئی ہے :
۱: تواضع اور برتری سے پرھیز۔
۲: فساد اور فتنہ پروری سے دوری۔
۳: تقوائے الھی کی مراعات۔
۲: سورة فاطر، آیت نمبر ۳۷ ۔ « اور یہ وہاں فریاد کریں گے کہ پروردگار ہمیں نکال لے ہم اب نیک عمل کریں گے اس کے برخلاف جو پہلے کیا کرتے تھے تو کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرسکتے تھے اور تمہارے پاس تو ڈرانے والا بھی آیا تھا لہٰذا اب عذاب کا مزہ چکھو کہ ظالمین کا کوئی مددگار نہیں ہے»۔ (۳)
اس ایت کریمہ بھی تین باتوں کی جانب اشارہ ہے :
۱: اہل جہنم شدت کے ساتھ پشیمان ہوں گے اور ہمیشہ فریاد کریں گے کہ خدایا ہمیں دنیا میں دوبارہ لوٹا دے تاکہ بہتر عمل کرسکیں ۔
۲: انہیں جواب دیا جائے گا کہ کیا تمہیں طولانی عمر نہیں دی گئی تھی ؟ تم نے اس سے کیوں نہیں استفادہ کیا ؟ ہم نے تمھارے لئے پغمبر صلوات اللہ علیہم اور امام علیہم السلام نہیں مبعوث کئے تھے؟ تم لوگوں نے ہمارے احکامات پر کیوں عمل نہیں کیا ؟
۳: سخت ترین عذاب جھلیں گے اور کوئی بھی ان کی فریاد کو نہ پہنچے گا ۔
۳: سورة حجرات، آیت نمبر ۱۳ ۔ «انسانو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگارہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے»۔ (۴)
اس ایت کریمہ میں بھی پانچ نکتے پوشیدہ ہیں :
۱: تمام انسان ایک مرد و زن سے پیدا ہوئے ہیں ۔
۲: قوموں اور زبانوں کے اختلاف کی بنیاد، شناخت ہے ۔
۳: کسی قوم کو دوسری قوم پر برتری حاصل نہیں ہے۔
۴: انسانوں کی برتری کا معیار تقوائے الھی ہے۔
۵: تقوائے الھی کی بنیاد یہ ہے کہ انسان اِس بات پر یقین و ایمان رکھے کہ خدا ہمارے کردار و ہماری گفتار سے آگاہ ہے اور اسے دیکھ رہا ہے ۔ (۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: مجموعۀ ورّام، ج ۲، ص ۲۳۶۔ «... وَ یعْمَلُونَ بِأَحْکامِهِ وَ یَرْجَونَ وَعْدَهُ وَ یخْشَوْنَ عَذَابَهُ» ۔
۲: قران کریم، سورة قصص، آیت ۸۳ ۔ «تلْک الدَّارُ الآخرَةُ نجْعَلُها لِلَّذینَ لا یریدُونَ عُلُوًّا فِی الْأَرْضِ وَ لا فَساداً وَ الْعاقِبَةُ لِلْمتَّقینَ»۔
۳: قران کریم، سورة فاطر، آیت ۳۷۔ «وَ هُمْ یصْطَرِخُونَ فیها رَبَّنا أَخْرِجْنا نَعْمَلْ صالِحاً غیرَ الَّذی کنا نعْمَلُ أَ وَ لَمْ نُعَمِّرْکمْ ما یتَذَکرُ فیهِ مَنْ تَذَکرَ وَ جاءَکمُ النَّذیرُ فَذُوقُوا فما لِلظالِمینَ مِنْ نَصیرٍ»۔
۴: قران کریم، سورة حجرات، آیت ۱۳۔ «یا أَیها الناسُ إِنَّا خَلَقْناکمْ مِنْ ذَکرٍ وَ أُنْثی وَ جَعَلْناکمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَکرَمَکمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاکمْ إِنَّ اللَّه علیمٌ خَبیرٌ»۔
۵: کشکول شیخ بهائی، ج ۱، ص۲۳۰۔
Add new comment