معصومہ کونین صدیقہ کبری خاتون محشر شافعہ محشر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی منزلت اور شرف کو بیان کرتے ہوئے بزرگ مجتہد آیت اللہ شیخ محمد حسین غروی اصفہانی جو کہ مرحوم کمپانی کے نام سے مشہور ہیں آپ کے سلسلے سے ایک مشہور قصیدہ کہتے ہیں جس کے بعض اشعار یہ ہیں:
وَهم به اوجِ قدسِ ناموس اله کی رسد؟ فهمِ که نعتِ بانوی خلوت کبریا کند؟
ناطقهی مرا مگر روح قدس کند مدد تا که ثنای حضرت سیده نسا کند (۱)
یعنی ناموس الہی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی بلندیوں کی قداست تک ہمارا وہم و گمان اور طائر فکر کہاں جاسکتا ہے ، وہ کون ہے جس کی فہم و فراست اس بانو کی تعریف کرسکتی ہے اس بانو کا وصف بیان کرسکتی ہے جو خاتون راز کردگار ہے۔ میری زبان اسی وقت سیدہ نساء عالمین کی ثناخوانی اور تعریف بجا لاسکتی ہے جب کہ روح القدس جناب جبرئیل میری مدد کریں ۔
علامہ اقبال آپ کے سلسلے سے ایک شعر میں کہتے ہیں : مریم از یک نسبت عیسی عزیز ۔ از سه نسبت حضرت زهرا عزیز (۲)
یعنی حضرت مریم سلام اللہ علیہا کا یہ رتبہ ، مقام ، منزلت اور آپ کی عظمت ، اس ایک نسبت کی بنا پر ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام سے آپ رکھتی ہیں یعنی آپ صرف حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ ہونے کی نسبت سے اس مقام و مرتبے پر فائز ہیں لیکن حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا تین نسبتوں سے اس شرف ، مقام اور اس منزلت پر فائز ہیں ایک جانب سے اولین و آخرین کے امام و رہبر رحمت للعالمین پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نورچشم ہیں تو دوسری جانب سے شیرخدا تاجدار ہل أتی مشکل کشاء کی زوجہ ہیں نیز تیسری جانب سے جوانان جنت کے سردار حضرات حسنین علیہما السلام کی والدہ ہیں ان نسبتوں نے جو آپ کو شرف بخشا ہے اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔
اقبال مزید فرماتے ہیں : مزرع تسلیم را حاصل بتول ۔ مادراں را اسوہ کامل بتول (۳)
اس شعر میں آپ کہتے ہیں کہ تسلیم و عبودیت کی کھیتی کا ماحصل اور نتیجہ جناب بتول عذراء سلام اللہ علیہا کی ذات اقدس ہے اگر کسی کو اللہ کے حضور تسلیم و عبودیت کا کامل نمونہ ، اسوہ اور آئیڈیل دیکھنا ہو تو سیرت و کردار فاطمی کی جانب نظر کرلے ، اسی طرح ایک ماں کی ذمہ داری کیا ہے ، کیسی نسلوں کو اسے سماج اور معاشرہ کے حوالے کرنا ہے ، اس کا بہترین نمونہ ، صدیقہ طاہرہ راضیہ مرضیہ سلام اللہ علیہا کی ذات والا صفات ہے جن کی آغوش تربیت کے پالے بیٹے جوانان جنت کے سردار جناب امام حسن علیہ السلام اور سید الشہداء جناب امام حسین علیہ السلام ہیں حسنین کریمین علیہما السلام ہیں اور آپ کی پروردہ بیٹیاں عقیلہ بنی ہاشم ثانی زہراء جناب زینب کبری سلام اللہ علیہا اور جناب ام کلثوم جیسی باعظمت خواتین ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱: آیہ اللہ محمدحسین غروی اصفهانی مشهور به کمپانی ، دیوان کمپانی ، ص ۳۹۔
فی مدح سیدة النساء سلام الله علیها : دختر فکر بکر من، غنچه ی لب چه وا کند ۔ از نمکین کلام خود حق نمک ادا کند ۔ طوطی طبع شوخ من گر که شکرشکن شود ۔ کام زمانه را پر از شکر جانفزا کند ۔ بلبل نطق من ز یک نغمه ی عاشقانه ای ۔ گلشن دهر را پر از زمزمه و نوا کند ۔ خامه ی مشکسای من گر بنگارد این رقم ۔ صفحه ی روزگار را مملکت ختا کند ۔ مطرب اگر بدین نمط ساز طرب کند گهی ۔ دائره ی وجود را جنت دلگشا کند ۔ منطق من هماره بندد چه نطاق نطق را ۔ منطقه ی حروف را منطقة السما کند ۔ شمع فلک بسوزد از آتش غیرت و حسید ۔ شاهد معنی من ار جلوه ی دلبربا کند ۔ نظم برد بدین نسق از دم عیسوی سبق ۔ خاصه دمیکه از مسیحا نفسی ثنا کند ۔ وهم باوج قدس ناموس آله کی رسد؟ ۔ فهم که نعت بانوی خلوت کبریا کند؟ ۔ ناطقه ی مرا مگر روح قدس کند مدد ۔ تا که ثنای حضرت سیده ی نساء کند ۔ فیض نخست و خاتمه نور جمال فاطمه ۔ چشم دل از نظاره در مبدء و منتهی کند ۔ صورت شاهد ازل معنی حسن لم یزل ۔ وهم چگونه وصف آئینه ی حق نما کند ۔ مطلع نور ایزدی مبدء فیض سرمدی ۔ جلوه ی او حکایت از خاتم انبیا کند ۔ بسمله ی صحیفه ی فضل و کمال معرفت ۔ بلکه گهی تجلی از نقطه ی تحت «با» کند ۔ دائره ی شهود را نقطه ی ملتقی بود ۔ بلکه سطد که دعوی لو کشف الغطا کند ۔ حامل سر مستسر حافظ غیب مستتر ۔ دانش او احاطه بر دانش ماسوی کند ۔ ین معارف و حکم بحر مکارم و کرم ۔ گاه سخا محیط را قطره ی بی بها کند ۔ لیلة قدر اولیاء، نور نهار اصفیا ۔ صبح جمال او طلوع از افق علا کند ۔ بضعه ی سید بشر ام ائمه ی غرر ۔ کیست جز او که همسری با شه لافتی کند؟ ۔ وحی نبوتش نسب، جود و فتوتش حسب ۔ قصه ای از مروتش سوره ی «هل اتی» کند۔
۲: ڈاکٹر محمد اقبال لاہوری ، کلیات اشعار فارسی اقبال لاہوری ، ص ۱۸۶۔
۳: گذشتہ حوالہ۔
Add new comment