گذشتہ سے پیوستہ
ان دو گراں قدر روایات اور ان جیسی دوسری متعدد روایات میں اپنے زمانہ کے امام کی شناخت نہ رکھنا جاہلیت اور گمراہی کی موت بتایا جا رہا ہے ، مقصد بشریت یعنی معرفت خدا سے دوری کا ذریعہ بتایا جا رہا ہے لہذا صحیح امام کی شناخت بشریت کی نجات کا ایک بہت اہم عنصر ہے اور اس سے غفلت برتنا سخت خسران اور عظیم گھاٹے کا سبب ہے لہذا اس مسٔلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہم سب کی ایک عقلی اور شرعی اہم ذمہ داری ہے ، اور صحیح امام کی شناخت ہمیں قرآن ، روایات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور احادیث آئمہ معصومین علیہم السلام کے علاوہ خود صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی سیرت ، آپ کے اقدامات اور آپ کی تاریخ سے بخوبی معلوم ہوتی ہے ، لہذا آپ کی سیرت آپ کے اقدامات اور آپ کی زندگی سے آشنا ہونا ہم سب کی اہم ذمہ داری ہے۔
دشمن کے حربوں کا شکار یا وہ نادان حضرات جو واقعیت اور حقائق تسلیم کرنا نہیں چاہتے کبھی یہ بہانا لاتے ہیں کہ یہ ایک تاریخی مسألہ ہے اور جو ہوا وہ ختم ہوگیا اب گڑے مردے اکھاڑنے کی کیا ضرورت ہے مثلا ہمارے آباء و اجداد اگر چودہ سو سال پہلے کسی مسٔلے پر لڑے ہوں تو اب عاقلانہ نہیں ہے کہ ہم اس کو چھیڑیں یعنی یہ حضرات کہنا چاہتے ہیں کہ فاطمیہ کا مسألہ اب کوئی فائدہ نہیں رکھتا یہ لوگ فاطمیہ کو ایک غیر ضروری مسألہ ظاہر کرنے کی لاحاصل کوشش کرتے ہیں۔
ان حضرات کے جواب میں ہم کہیں گے کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم کسی سے جھگڑا اور لڑائی کرنے والی قوم نہیں ہیں بلکہ ہم پرچمدار اتحاد ہیں سب سے زیادہ امت مسلمہ کے مسائل کے لئے شیعہ عالمی لیڈر شپ کوشاں ہے ، لیکن آپ اس بہانہ سے انسانی تاریخ کے ایک بنیادی ترین انحراف کو اور وہ بھی ایسا انحراف جس کے تباہ کن آثار ابھی تک باقی ہیں اور جس انحراف کے باعث عالم اسلام میں صدیوں سے مشکلات پیدا ہوتی رہی ہیں ، دبانے کی کوشش کریں اور یہ کہہ کر کہ یہ ذاتی جھگڑا تھا یا خاندانی لڑائی تھی ، اس انحراف اور خیانت کو دنیا کے سامنے لانے والی آواز کو دبانا چاہیں تاکہ اس انحراف کو صحیح ثابت کرسکیں اور اس انحراف کو صحیح ثابت کرکے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وصیتوں کو بھلا دیں نیز صدیقہ کبری خاتون جنت راضیہ مرضیہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے اقدام کو ایک صحیح حکومت کے مقابل معاذاللہ ذاتی جھگڑے یا غلط اقدام کے عنوان سے پیش کریں یا نادانستہ ایسے افکار کی تائید ہورہی ہو ، تو نہ تو یہ اتحاد کا معنی ہے اور نہ دین و شرع اس کی اجازت دیتے ہیں ، اور نہ آج سوشل میڈیا کے دور میں جبکہ حقائق سے پردے اٹھ رہے ہیں کوئی ایسا کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: ابن طیفور، بلاغات النساء ؛ حسن بن سلیمان حلی ، مختصر بصائر الدرجات ، ص ۴۵۶ ؛ سید مرتضی ، الشافی فی الامامہ ، ج ۴ ، ص ۷۱۔ جَعَلَ اللهُ الاِیمانَ تَطْهیراً لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ، وَ الصَّلاةَ تَنْزیهاً لَکُمْ عَنِ الْکِبْرِ، وَ الزَّکاةَ تَزْکِیَةً لِلنَّفْسِ، وَ نَماءً فِی الرِّزْقِ، وَ الصِّیامَ تَثْبِیتاً لِلاِخْلاصِ، وَ الْحَجَّ تَشْیِیداً لِلدِّینِ، وَ الْعَدْلَ تَنْسِیقاً لِلْقُلُوبِ، وَ طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ، وَ اِمامَتَنا اَماناً مِنَ الْفُرْقَةِ [لِلْفُرْقَةِ]، وَ الْجِهادَ عِزاً لِلاِسْلامِ، وَ الصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَى اسْتِیجابِ الاَجْرِ وَ الاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعامَّةِ وَ بِرَّ الْوالِدَیْنِ وِقایَةً مِنَ السُّخْطِ وَ صِلَةَ الاَرْحامِ مَنْماةً لِلْعَدَدِ وَ الْقِصاصَ حَقْناً لِلدِّماءِ وَ الْوَفاءَ بِالنَّذْرِ تَعْرِیضاً لِلْمَغْفِرَةِ وَ تَوْفِیَةَ الْمَکایِیلِ وَ الْمَوازِینِ تَغْیِیراً لِلْبَخْسِ وَ النَّهْیَ عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ تَنْزِیهاً عَنِ الرِّجْسِ وَ اجْتِنابَ الْقَذْفِ حِجاباً عَنِ اللَّعْنَةِ وَ تَرْکَ السَّرِقَةِ اِیجاباً لِلْعِفَّةِ وَ حَرَّمَ اللهُ الشِّرْکَ اِخْلاصاً لَهُ بِالرُّبُوبِیَّةِ۔
Add new comment