عقاید
دعا، اعمال، عبادات اور دیگر دینی کتابوں میں ماہ رجب کی خاص اہمیت بیان کی گئی ہے ، اس ماہ کو ماہ امیرالمومنین علی علیہ السلام کا نام سے بھی دیا گیا ہے جن کی عبادتیں، خدا سے راز و نیاز اور دعائیں بے مثال ہیں ۔
ابتدائی تخلیق کے بعد مخلوق کی ضرورت پوری اور ختم نہیں ہوجاتی۔ چونکہ ضرورت اور محتاجی مخلوقات کی فطرت اور ان کی ذات کا خاصّہ ہے اور وہ ہر نَفَس اور ہر آن، دَم بہ دَم وہ بس خدائی فضل سے قائم و دائم ہے اور ان کا وجود پوری طرح سے خدا ہی کے فضل و کرم اور اسی کے رحم و کرم پر منحصر ہے۔یہی وہ منزل و مقا
اسے کسی دوسرے نے پیدا نہیں کیا اور نہ ہی کسی غیر نے اسے بنایا ہے۔وہ خود کیسے اور کیونکر بنا اس کی کیفیت مخلوق پر پوشیدہ ہے اور اس طرح کی تخلیق و ایجاد کا طریقہ مخلوق کو معلوم نہیں ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ وہ کیفیت و مقدار نہیں رکھتا۔ اس قسم کی تخلیق میں صرف اور صرف خدائےتعالیٰ ہی منفرد و ممتاز ہے اور یہ اسی کی ذات سے مخصوص کام ہے اور توحید خالقیت بھی اسی معنی کی ہی طرف اشارہ ہے۔
خدا کی ںصرت اور مدد انقلاب اسلامی ایران کی پیروزی اور تمام دینی، ملکی، اقداری اور انسانی مشکلات پر غلبہ پانے کا سبب بنی، لہذا موجودہ زمانہ اور مستقبل کی مشکلات سے نجات پانے کیلئے بھی ہمیں اپنی غلطیوں کے ازالہ کی کوشش کے ساتھ ساتھ خداوند متعال سے نصرت و مدد کی درخواست کرتے رہنا چاہئے ۔
توحید کا ایک واضح اور فطری مطلب ہے، اور وہ ہے خدا کو ایک جاننا اور غیر خدا کو خدا سے تشبیہ دینے سے انکار کرنا۔ لیکن عقائد کی کتابوں میں توحید کے موضوع پر مختلف زاویوں سے بحثیں موجود ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنے اپنے لحاظ سے ایک جہت میں تشبیہ کی نفی کو واضح کرتی نظر آتی ہیں ۔ ہم بھی توحید کے موضوع پر موجود رائج تقسیم بندی کے اعتبار سے ہی بحث کو آگے بڑھائیں گے۔ توحید کی مشہور تقسیموں میں سے ہم توحید ذات، توحید صفات وغیرہ کا ذکر کر سکتے ہیں۔ علمِ کلام میں استعمال ہونے والی ان اصطلاحات کی کوئی عقلی یا نقلی حدود نہیں ہیں اور یہ ایک دوسرے سے بالکل الگ اور مستقل بھی نہیں ہیں۔
شرکِ بَیّن کے مقابلے میں شرک کا ایک اور درجہ پایا جاتا ہے جسے شرکِ خفی کہتے ہیں۔ اس قسم کا شرک کسی پختہ اور مستحکم عقیدہ سے ماخوذ نہیں ہوتا، بلکہ انسان غفلت و نادانی-اور بھول چوک-اور ارادے کی کمزوری کی وجہ سے کچھ ایسے اعمال کا ارتکاب کربیٹھتا ہے جس کے نتیجے میں خدا کے احکام و ممنوعات اور اس کے اوامر و نواہی پسِ پشت پڑ جاتے ہیں، خواہشات نفسانی غالب آجاتی ہے اور انسان شیطان کی پیروی کرنے لگتا ہے۔ شرکِ خفی کا دائرہ بہت وسیع ہے، جن میں سے کچھ کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔
سورہ سبا کی 46 ویں ایت کریمہ کے معنی یہ ہیں کہ اے پیغبر اپ ان سے کہدیجئے ، ان کی راہنمائی کریئے کہ وہ لوگ الگ الگ اور بغیر شور و غل کے خدا کیلئے قیام کریں ، میرے حکم کے سلسلہ میں خلوت اور تنہائی میں خوب سوچیں اور غور کریں ، ان سے کہئے کہ ہم نے ایک مدت تک تمہارے درمیان زندگی بسر کی ہے ، تم نے مجھ
(موسیقی قران کریم کی نظر میں)
کم و بیش معاشرہ کی اکثریت موسیقی (میوزک) کے مسئلہ سے روبرو ہے ، اگر چہ دینی معاشرہ پوری طاقت کیساتھ خود کو موسیقی سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر نئی نسل اور جوانوں کا ایک بڑا طبقہ خواہ نخواہ اس سماجی مشکل میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔
فاطمہ کلابیہ معروف بہ امّ البنین، حضرت ابوالفضل العباس سلام الله علیہ کی مادر گرامی، ایک عظیم المرتبت، صاحب کمال اور بافضیلت خاتون ہیں کہ ان میں سے بعض کا ہم یہاں پر تذکرہ کررہے ہیں ۔
۱: بہادر، نڈر اور طیب و طاھر گھرانے میں پرورش:
اللہ نے جو کچھ بھی پیغمبر اکرم(ص)کو سکھایا تھا ،وہ سب کا سب انھوں نے ابوالائمہ علی بن ابی طالب(ع)کو سونپ دیا اور ائمہ بھی انھی کے توسط سے علمِ نبوی کے وارث ہوئے۔ اس طرح سے وہ تمام علوم جن کے لوگ ضرورتمند تھے، حاصل ہوئے،بالکل ویسے ہی جیسے امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا اگر لوگ اس علمِ الٰہی کے خزانے کی قدر کرتے اور اس کی حرمت و تقدس کا خیال رکھتے تو آسمان و زمین کی برکتیں ان کی جھولیوں میں آگرتیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ آنحضور(ص) کی رحلت کے بعد ان کی قیمتی اور گراں بہایادگار کے ساتھ اچھابرتاؤ نہ کیا گیا اور اصل منبع سے اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل نہیں کی گئیں اور خود کو تباہی و بربادی کے گڑھے میں گرا دیا گیا۔