اسے کسی دوسرے نے پیدا نہیں کیا اور نہ ہی کسی غیر نے اسے بنایا ہے۔وہ خود کیسے اور کیونکر بنا اس کی کیفیت مخلوق پر پوشیدہ ہے اور اس طرح کی تخلیق و ایجاد کا طریقہ مخلوق کو معلوم نہیں ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ وہ کیفیت و مقدار نہیں رکھتا۔ اس قسم کی تخلیق میں صرف اور صرف خدائےتعالیٰ ہی منفرد و ممتاز ہے اور یہ اسی کی ذات سے مخصوص کام ہے اور توحید خالقیت بھی اسی معنی کی ہی طرف اشارہ ہے۔
عالمِ تکوین میں خدا کے صاحبِ اختیار ہونے کا سب سے پہلا مظاہرہ خدا کے خلق کرنے اور ایجاد کرنے کی صورت میں آتاہے۔ لہٰذا توحیدِ خالقیت کا مسئلہ سب سے پہلے آتا ہے۔
الف) توحیدِ خالقیت : صفات کے تنزیہی معنی پر غور کرتے ہوئے کہ جس کی وضاحت بیان کی جاچکی، یہ خیال رہے کہ خدائی صفات میں سے ایک صفت "خالق" کو بھی تنزیہی اعتبار سے ہی بیان کرنا چاہیے جس کا مطلب یہ ہے کہ مخلوقات و مصنوعات اپنے آپ ہی اور خودبخود ہی وجود میں نہیں آگئے بلکہ ان کا وجود میں آنا کسی اور کا مرہون منّت اور کسی غیر کی ذات سے وابستہ ہےجو کہ خود کسی اور کی مخلوق و مصنوع نہیں ہے یعنی اسے کسی دوسرے نے پیدا نہیں کیا اور نہ ہی کسی غیر نے اسے بنایا ہے۔وہ خود کیسے اور کیونکر بنا اس کی کیفیت مخلوق پر پوشیدہ ہے اور اس طرح کی تخلیق و ایجاد کا طریقہ مخلوق کو معلوم نہیں ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ وہ کیفیت و مقدار نہیں رکھتا۔ اس قسم کی تخلیق میں صرف اور صرف خدائےتعالیٰ ہی منفرد و ممتاز ہے اور یہ اسی کی ذات سے مخصوص کام ہے اور توحید خالقیت بھی اسی معنی کی ہی طرف اشارہ ہے۔
قرآن کریم کی بعض آیات ایسی ہیں جو خالقیت کو صرف اور صرف خدا سے ہی منسوب ماننے پر زور دیتی ہیں :
﴿قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَ هُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ ﴾.[1]
کہہ دیجئے کہ خدا ہی ہر شئے کا خالق ہے اور وہی یکتا اور سب پر غالب ہے ۔
لیکن خالق کا لفظ خدا کے علاوہ بھی کسی اور کے لئے استعمال ہوا ہے ہم قرآن کریم میں مثال کے طور پر دیکھتے ہیں جہاں ارشاد ہے :
﴿...فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقين﴾. [2]
وہ اللہ جو سب سے بہترین خالق ہے ۔
﴿وَ إِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْني﴾.[3]
اور جب آپ میرے حکم سے مٹی کے پرندے کا پتلا بناتے تھے ۔
لیکن دونوں کی تحلیق میں کسی طرح کی کوئی مشابہت و مماثلت نہیں ہے، کیونکہ خدا کی تخلیق مستقل اور تنِ تنہا ہے اور اس میں کسی طرح کی کیفیت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ، جب کہ دوسروں کی تخلیق خدا کی اجازت و اذن اور اس کی دی ہوئی طاقت سے ہوتی ہے، اور یہ ایک بنیادی اور اصلی فرق ہےخدا کی تخلیق اور بندوں کی تخلیق میں۔
ب) توحیدِ مالکیت: رب کے معنی میں سے ایک ہے مالک ہونا۔ یہ مالکیت تکوینی اور حقیقی مالکیت کی صورت میں بھی ہوسکتی ہےیا پھر حقوقی مالکیت کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے۔ اب اس لحاظ سے کہ خدائے متعال ہی تمام چیزوں کا خالق ہے اور اس نے ان چیزوں کو بغیر کسی پہلے سے پائے جانے والے نمونےکی مدد کے ایجاد کیا ہے اور تخلیق کے بعد انہیں تنہا یونہی اپنے حال پر نہیں چھوڑا ہے اور ہر ایک چیز اسی پر منحصر ہے، اس لئے ظاہر ہے کہ تمام مخلوقات خدا کی ہی اور اسی سے وابستہ ہیں اور خدا ہی حقیقی و تکوینی معنوں میں کائنات کا مالک ہے،اور وہ ان پر جیسے چاہے تصرّف کرنے پر قادر ہے۔ یہ مالکیت ایک حقیقی ، خود مختار اور لامحدود مالکیت ہے :
﴿وَ لِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدير﴾.[4]
اور اللہ کے لئے کل آسمان اور زمین کی حکومت [5]ہے اور وہ ہر شئے پر قادر ہے ۔
اس قسم کی مالکیت،دوسری تمام الٰہی صفات کی طرح ہی ذاتِ اقدسِ الٰہی کے ساتھ ہی مخصوص ہے اور اس کے ساتھ کسی کی کوئی بھی شراکت نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ مخلوقات بھی کچھ چیزوں کے مالک ہیں۔ مثلاً: انسان وجود، علم، عقل اور ارادے جیسی چیزوں کا مالک ہے۔ اب کیا اس انسان کا اس طرح سے مالکیت رکھنا الٰہی ملکیتِ تامّہ سے متصادم ہے؟ اور کیا مالک ہونے میں کوئی خدا کے ساتھ شریک ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ:وہ مالکیت جو خدا اپنی مخلوقات پر رکھتا ہے اس مالکیت کا کسی طور پر مخلوق کی مالکیت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا اور جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ خدائی مالکیت، توصیف و کیفیت سے بہت ہی بلند و بالا ہے اور اس میں کسی طرح کی کوئی محدودیت نہیں ہے اور خدا کی مالکیت کا شمار خود مختار اور ذاتی مالکیت میں ہوتا ہے۔ لیکن انسانوں جیسی مخلوقات اپنے آپ میں اور خود سے کوئی کمال نہیں رکھتیں اور تمام کے تمام کمالات ان کو خدا کے فضل سے عطا ہوئے ہیں اور پھر جاکر وہ ان کمالات کے مالک بنے ہیں۔ بلاشبہ مخلوق کو کبھی بھی اپنے کمالات تفویض کے ذریعے حاصل نہیں ہوئے کہ اسے کہیں سے اتفاقاً مل گئے ہوں بلکہ الٰہی تقدیر اور اس کی مشیّت سے یہ کمالات حاصل ہوتے ہیں۔یعنی باوجود اس کے کہ یہ کمالات کسی موجودکے سپرد ہوتے ہیں اس کے باوجود اس پر سے خدائی مالکیت ختم نہیں ہوتی، اور خدا اپنی عطا کردہ نعمتوں کا سب سے زیادہ مالک ہے، اور مخلوقات اپنے کمالات میں صرف اسی حد تک تصرّف کرنے کی اذن و اجازت رکھتی ہیں جتنی کہ انھیں اللہ کی طرف سے اذنِ تکوینی حاصل ہے۔ اور موجودات صرف اس کی تکوینی اجازت کے دائرہ میں اپنے کمالات پر تصرت کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔
اس لیے مخلوقات کی مالکیت اور الٰہی مالکیت میں واضح فرق اور روشن امتیاز پایا جاتا ہے اور مالکیت میں خدا اور مخلوق کا باہم مشترک نہ ہونے کا معیار اور بنیاد الٰہی مالکیت کا ذاتی اور خود مختار ہونا اور اس کا کیفیت نہ رکھنا اور مخلوقات کی مالکیت کا اللہ کے اذن و اجازت سے اور اس کے سبب سے ہونے میں ہے:
﴿قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسي ضَرًّا وَ لا نَفْعاً إِلاَّ ما شاءَ اللَّهُ﴾.[6]
کہہ دیجئے میں اپنے نفس کے نقصان اور فائدہ کا بھی مالک نہیں ہوں جب تک خدا نہ چاہے ۔
ظاہر ہے کہ مخلوق کی مالکیت خدائی ملکیت کے تحفظ سے ہی ہے۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین کے حوالے سے ایک مفصل حدیث میں امام علی نقی الہادی نے انسانی صلاحیت اور طاقت کو بیان کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے:
«تَقُولُ إِنَّكَ تَمْلِكُهَا بِاللَّهِ الَّذِي يَمْلِكُهَا مِنْ دُونِكَ فَإِنْ يُمَلِّكْهَا إِيَّاكَ كَانَ ذَلِكَ مِنْ عَطَائِهِ وَ إِنْ يَسْلُبْكَهَا كَانَ ذَلِكَ مِنْ بَلَائِهِ هُوَ الْمَالِكُ لِمَا مَلَّكَكَ وَ الْقَادِرُ عَلَى مَا عَلَيْهِ أَقْدَرَك»[7]
تم کہتے ہوکہ تم خدا کی عطا سے کسی قدرت کے مالک ہو اور تمہارے مدِّ مقابل خدا کے پاس بھی وہی قدرت ہے جس قدرت کے تم مالک ہو۔ لہٰذا اگر اس نے تمھیں اس قدرت کا مالک بنادیا ہے تو یہ اس کی عطا و بخشش ہے ، اور اگر اس کو تم سے چھین لے تو بیشک یہ اس کا امتحان ہے کیونکہ وہی تو اس کا اصل مالک ہے جس وہ چیز تمھارے اختیار میں دے دی تھی اور اپنی اس چیز پر کہ جسے تمھیں دے دیا تھا پوری طرح سے اس کا مالک و مختار ہے۔
..............
منابع ومأخذ
[1] رعد(13)/ 16
[2] مومنون(23)/ 14
[3] مائدہ (5)/ 110
[4] آل عمران ،(3)/189
[5] بادشاہی یا وہی جسے حقوقی مالکیت کہہ لیں، خدا کی حقیقی مالکیت کا نتیجہ ہے جس کے بارے میں تفصیلی بحث پانچویں درس میں پیش کی جائے گی۔
[6] یونس (10)/ 49۔
[7] تحف العقول / 492 ، بحار الانوار 5 /75۔
Add new comment