اللہ نے جو کچھ بھی پیغمبر اکرم(ص)کو سکھایا تھا ،وہ سب کا سب انھوں نے ابوالائمہ علی بن ابی طالب(ع)کو سونپ دیا اور ائمہ بھی انھی کے توسط سے علمِ نبوی کے وارث ہوئے۔ اس طرح سے وہ تمام علوم جن کے لوگ ضرورتمند تھے، حاصل ہوئے،بالکل ویسے ہی جیسے امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا اگر لوگ اس علمِ الٰہی کے خزانے کی قدر کرتے اور اس کی حرمت و تقدس کا خیال رکھتے تو آسمان و زمین کی برکتیں ان کی جھولیوں میں آگرتیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ آنحضور(ص) کی رحلت کے بعد ان کی قیمتی اور گراں بہایادگار کے ساتھ اچھابرتاؤ نہ کیا گیا اور اصل منبع سے اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل نہیں کی گئیں اور خود کو تباہی و بربادی کے گڑھے میں گرا دیا گیا۔
حضرت امیر المؤمنین(ع) کی ایک سب سے اہم خوبی اور انھیں سے مخصوص خصوصیات میں سے ایک، آپ کا رسول اکرم(ص) کی تعلیم سے علوم الٰہی کا مالک ہونا ہے۔ امیر المؤمنین(ع) اور دیگر اماموں(ع) کی علمی وراثت کو دو نقطۂ نظر سے دیکھا جاسکتا ہے: ایک یہ کہ ان عظیم ہستیوں نے خود دعویٰ کیا ہےکہ آیاتِ الٰہی کاجو کچھ علم رسول اللہ(ص) کے پاس تھا وہ انھیں سونپ دیا گیا ہے۔ سارے کے سارے علوم انھیں ودیعت فرمادیے گئے ہیں جیسے: علم تأویل و تنزیل،ظاہر و باطن،محکم و متشابہ،ناسخ و منسوخ،حلال و حرام اور قرآن سے متعلق ہر چیز۔
«…فَقَالَ:]امیرالمؤمنین (علیه السلام)[ وَيْلَهُمْ إِنِّي لَأَعْرِفُ نَاسِخَهُ وَ مَنْسُوخَهُ وَ مُحْكَمَهُ وَ مُتَشَابِهَهُ وَ فَصْلَهُ مِنْ وَصْلِهِ وَ حُرُوفَهُ مِنْ مَعَانِيهِ وَ اَللَّهِ مَا حَرْفٌ نَزَلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ إِلاَّ وَ أَنَا أَعْرِفُ فِيمَنْ أُنْزِلَ وَ فِي أَيِّ يَوْمٍ نَزَلَ وَ فِي أَيِّ مَوْضِعٍ نَزَلَ وَيْلَهُمْ أَ مَا يَقْرَءُونَ﴿إِنَّ هٰذٰا لَفِي اَلصُّحُفِ اَلْأُولىٰ صُحُفِ إِبْرٰاهِيمَ وَ مُوسىٰ﴾ وَ اَللَّهِ عِنْدِي وَرِثْتُهَا مِنْ رَسُولِ اَللَّهِ……»([1])....امیرالمؤمنین(ع) نے ارشاد فرمایا:ان پر افسوس! بلاشبہ میں قرآن کےناسخ و منسوخ سے، اس کے محکم اور متشابہ سے، اس کے فصل اوروصل سے، اس کے حروف اور اس کی مراد سے سب سے زیادہ آگاہ ہوں اور انھیں بہتر ڈھنگ سے جانتا ہوں۔ خدا کی قسم! ایسا کوئی حرف نہیں جو محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پرنازل ہوا ہو اور میں اسے اچھی طرح نہ جانتا ہوں کہ یہ کس کے بارے میں نازل ہوا ؟ کس دن نازل ہوا؟ اور یہ کس مقام پر نازل ہوا؟ وائے ہو ان پر! کیا ان لوگوں نے نہیں پڑھا کہ«یقیناً یہ بات پہلے صحیفوں میں بھی ہے،یعنی ابراہیم(ع) اور موسیٰ(ع) کے صحیفوں میں» خدا کی قسم! ]وہ[میرے پاس ہے اور میں نے اسے رسولِ خدا(ص) سے وراثت میں پایا ہے…۔
دوسرے یہ کہ ائمہ(ع)نے پیغمبر اکرم(ص) کے تمام علوم کو وراثت میں پایا ہے۔ رسول خدا(ص) خطبۂ غدیر میں ارشاد فرماتے ہیں:«مَعَاشِرَ اَلنَّاسِ! مَا مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ وَ قَدْ أَحْصَاهُ اَللَّهُ فِيَّ وَ كُلُّ عِلْمٍ عَلِمتُهُ]عُلِّمْتُهُ [فَقَدْ أَحْصَيْتُهُ فِي اَلْمُتَّقِينَ مِنْ وُلْدِهِ وَ مَا مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ وَ قَدْ عَلَّمْتُهُ عَلِيّاً وَ هُوَ اَلْإِمَامُ اَلْمُبِينُ …»([2])اے لوگو! ایسا کوئی علم نہیں ہے جسے اللہ نے میرے وجود میں چُن چُن کر نہ رکھا ہو اور ہر وہ علم جسے میں جانتا ہوں، اسے میں نے علی کی پرہیزگار اولاد کو سونپ دیا ہے اور ایسا کوئی علم نہیں جس کی تعلیم میں نے علی کو نہ دی ہو اور وہ امام مبین ہے…۔
امیرالمؤمنین(ع) بھی کچھ اسی طرح کے جملے ارشاد فرماتے ہیں:«…أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ (صلی الله علیه و آله) أَسَرَّ إِلَیَّ فِی مَرَضِهِ مِفْتَاحَ أَلْفِ بَابٍ فِی الْعِلْمِ یَفْتَحُ کُلُّ بَابٍ أَلْفَ بَابٍ وَ لَوْ أَنَّ الْأُمَّهًْ بَعْدَ قَبْضِ رَسُولِ اللَّهِ (صلی الله علیه و آله) اتَّبَعُونِی وَ أَطَاعُونِی لَأَکَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ.»([3])حضور اکرم ﷺ نے اپنی علالت کے دوران(جو آپ کی رحلت پر منتج ہوئی) مجھے علم کے ہزار دروازوں کی کلید عطا کی ، جن میں سے ہر دروازہ، دوسرے ہزار دروازے کھولتا ہے۔ اگر امّت کے لوگ، رسول اللہ(ص) کی رحلت کے بعد میری اطاعت کرتے تو (بے انتہاء مادّی و روحانی برکتیں)اپنے سروں اور پیروں کے نیچے سے حاصل کرتے۔
اسی طرح امام صادق(ع) فرماتے ہیں:«لَم يَتْرُكُ اَلْأَرْضَ بِغَيْرِ عَالِمٍ يَحْتَاجُ اَلنَّاسُ إِلَيْهِ وَ لاَ يَحْتَاجُ إِلَيْهِمْ يَعْلَمُ اَلْحَلاَلَ وَ اَلْحَرَامَ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ بِمَا ذَا يَعْلَمُ قَالَ وِرَاثَةٌ مِنْ رَسُولِ اَللَّهِ وَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ .»([4])اللہ نے زمین کو بغیر عالم کے یونہی نہیں چھوڑدیا ہے،ایک ایسا عالم جس کے لوگ محتاج ہیں اور وہ ان کا محتاج نہیں ہےجو حلال و حرام کا علم رکھتا ہے۔ (راوی کہتا ہے)میں نے کہا:میں آپ پر قربان جاؤں؛کیسےاور کس طرح وہ اس علم کا مالک ہے؟آپؑ نے فرمایا:اس علم کے ذریعہ جو اسے حضور نبی اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین(ع) سے وراثت میں ملا ہے۔
اللہ نے جو کچھ بھی پیغمبر اکرم(ص) کو سکھایا تھا ،وہ سب کا سب انھوں نے ابوالائمہ علی بن ابی طالب(ع)کو سونپ دیا اور ائمہ بھی انھی کے توسط سے علمِ نبوی کے وارث ہوئے۔ اس طرح سے وہ تمام علوم جن کے لوگ ضرورتمند تھے، حاصل ہوئے،بالکل ویسے ہی جیسے امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا اگر لوگ اس علمِ الٰہی کے خزانے کی قدر کرتے اور اس کی حرمت و تقدس کا خیال رکھتے تو آسمان و زمین کی برکتیں ان کی جھولیوں میں آگرتیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ آنحضور(ص) کی رحلت کے بعد ان کی قیمتی اور گراں بہایادگار کے ساتھ اچھابرتاؤ نہ کیا گیا اور اصل منبع سے اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل نہیں کی گئیں اور خود کو تباہی و بربادی کے گڑھے میں گرا دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع ومأخذ
([1]) بصائر الدرجات/۱۵۵، الجزء الثالث، باب ۱۰،ح ۳ اور بحار الانوار ۸۹/۸۷، باب أنّ للقرآن ظھراً و بطناً، ح ۲۳اور اس سے مشابہ مزید روایات اسی باب میں مذکور ہیں۔
([2]) احتجاج ۱/۷۴، حدیث الغدیر،مزید حوالوں تک رسائی کے لیے رجوع کریں: اسرار غدیر، محمد باقر انصاری۔
([3]) احتجاج ۱/۲۲۳/ احتجاجہ علی المہاجرین والانصار ۔ اور اسی سے مشابہ: خصال، صدوق ۲/۶۴۲، باب عَلّمَ رسول اللہ(ص) علیاً الف باب… اور بحار الانوار ۲۲/ ۴۶۱-۴۶۵۔ اور گزشتہ حوالہ ۴۰/۱۲۷-۲۰۰۔
([4]) بحار الانوار ۲۶/۱۷۳، مزید اطلاع کے لیے رجوع فرمائیں: بحار الانوار ۲۶/ ابواب علوم الائمۃ اور کافی ۱/کتاب الحجۃ، ابواب علوم الائمۃ اور بصائر الدرجات۔
Add new comment