اربعین اور ظہور منجی

Thu, 08/29/2024 - 18:18

کربلا کے دردناک واقعہ نے بشریت پر وہ تاثیر ، نقش اور اثر چھوڑا ہے اور اس طرح اس حادثہ نے انسانوں میں اپنی جگہ بنائی ہے اور بشریت کو وہ بے مثال عظیم اور سبق آموز پیغامات دئے ہیں جو اس کے علاوہ کسی واقعہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے، لہذا پورے وثوق اور یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وعدہ الہی کا پورا ہونا اسی کربلا ، عاشور اور اربعین کے ذریعہ ہوگا ، پروردگار ارشاد فرماتا ہے : وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ؛ ہم نے ذکر (توریت) کے بعد زبور میں یہ لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث میرے صالح بندے ہوں گے (۱) ، اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے کہ یہ صالح بندے وہ ہیں جن پر ظلم روا رکھا گیا لیکن اس ظلم کے باوجود اللہ کی مدد ان کے شامل حال ہوگی : وَ نُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ ؛ ہم نے ارداہ کیا ہے کہ وہ لوگ جو زمین پر مستضعف بنائے گئے ہیں ان پر منت کریں اور انہیں امام و وارث قرار دیں ۔ (۲)  

کربلا کے حادثہ میں خون کی شمشیر پر فتح ہوئی ، بہتر کی فوج نے سر کٹا کر اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی اور یزیدی ٹولہ سر کاٹنے کے باوجود شکست فاش کھا گیا اور ذلت و خواری ان کا مقدر بن گئی لیکن سیدالشداء حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اعوان و انصار ، عزت و افتخار کی بلندیوں پر فائز ہوئے اور انسانیت آج بھی ان پر ناز کرتی ہے اور حسین و حسینیت ، حق ، عدالت انصاف سچائی کی علامت بن گئی اور ظلم و جور کے مقابل اٹھنے والی ایک مضبوط آواز میں تبدیل ہوگئی ۔

کربلا سے ہمیں یہی نکتہ سمجھنے کو ملتا ہے کہ سخت ترین حالات میں جب کہ تمام راستے بند ہوجائیں اور دنیا اندھیر ہوجائے ، انسان چاروں طرف سے گھر جائے لیکن اس وقت اگر انسان اللہ پر بھروسہ رکھے ، اسے یہ یقین ہو کہ اللہ اس کے ساتھ ہے اور اللہ کی راہ میں پیش کی جانے والی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی تو شکست اس کے لئے معنی نہیں رکھتی اور دشمن اسی آئیڈیالوجی سے ڈرتا ہے ، اسی ایمان و یقین سے خوف کھاتا ہے۔

دشمن جانتا ہے کہ شیعوں کے پاس عالمی حکومت کے قیام کے لئے ایک کامیاب آئیڈیل پایا جاتا ہے اور وہ کربلا سے ملنے والا درس قیام ، درس حریت ، درس وفاداری اور درس اخلاص ہے اور خدا کے لئے کام کرنے کا بہترین سبق ہے جس نے شیعوں کو شکست ناپذیر بنا دیا ہے کیونکہ ہاری ہوئی جنگ کو جیتنے کا ہنر انہیں کربلا سے ملتا ہے۔

اسی کربلائی ثقافت سے اربعینی تمدن وجود میں آتا ہے جو ہمیں ظہور کی نوید دیتا ہوا نظر آرہا ہے ۔

عشق و محبت ، ایثار و فداکاری ، قربانی کا جذبہ ، اخلاص اور دوسروں کی آسائش کیلئے اپنے تمام مادی وسائل کو بغیر کسی توقع کے پیش کردینا یہ وہ مناظر ہیں جو منجی عالم بشریت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کی نوید دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور بشریت کو ظہور کے بعد قائم ہونے والی ثقافت اور لائف اسٹائل کی جھلک سے روشناس کرا رہے ہیں ۔

یہ وہ ثقافت ہے جو مغربی طرز حیات اور مادیت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کے سامنے جہاں اپنی ذاتی منفعت اور فائدوں کے لئے انسانوں کو قربان کیا جاتا ہے ، لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے ، دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے ، ایک دوسرے پر رحم نہیں کیا جاتا صرف اپنی لابی اور گروہ  کو فائدہ پہونچایا جاتا ہے ۔

اس جاہلی ثقافت کے سامنے اربعینی ثقافت ایک مھدوی تمدن سے دنیا کو آشنا کرارہی ہے جہاں عظیم اخلاق اور کردار کا مظاہرہ ہوتا ہے ، جذبہ فداکاری اور اخلاص کے اعلی نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں ، معنویت میں لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جارہے ہیں ، خدا کے لئے عمل انجام دینے کی تربیت ہو رہی ہے ، انبیاء اور آئمہ کی سیرت کے نقوش جابجا اپنی خوشبو پھیلا رہے ہیں ، یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ جاہلی ثقافت و تمدن کے سامنے الہی سلیقہ حیات سے دنیا کو آشنا کرایا جارہا ہے اسی لئے ؛

«زیارت اربعین ظہور منجی عالم بشریت کا پیغام دیتی ہوئی نظر آرہی ہے» ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

۱: قران کریم ، سورہ انبیاء ، آیت ۱۰۵۔

۲: قران کریم ، سورہ قصص ، آیت ۵ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
12 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 30