ابتدائی تخلیق کے بعد مخلوق کی ضرورت پوری اور ختم نہیں ہوجاتی۔ چونکہ ضرورت اور محتاجی مخلوقات کی فطرت اور ان کی ذات کا خاصّہ ہے اور وہ ہر نَفَس اور ہر آن، دَم بہ دَم وہ بس خدائی فضل سے قائم و دائم ہے اور ان کا وجود پوری طرح سے خدا ہی کے فضل و کرم اور اسی کے رحم و کرم پر منحصر ہے۔یہی وہ منزل و مقام ہے جہاں شانِ ربوبیت کا مسئلہ کہ جسے کائنات اور مخلوقات کے انتظام و انصرام اور اس کی تدبیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے پیش آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مخلوقات کی بقا کا دارومدار بھی خدا پر ہے اور کائنات میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا دارومدار بھی اس کی ہی مشیّت پر ہے۔
﴿يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّماءِ إِلَى الْأَرْض﴾.[1]؛وہ خدا آسمان سے لے کر زمین تک کے امور کی تدبیر کرتا ہے ۔
اب جب کہ دنیا میں ہر تبدیلی خدا کی اجازت اور اس کے اِذن و مشیّت سے ہوتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ: بندوں کا اختیاری عمل کس طرح توحید کے ساتھ خدا کی تدبیر میں کیسے مطابقت رکھتا ہے اور یہ کیسے آپس میں ہم آہنگ ہیں؟ یعنی اگر خدا کائنات کا قادر مطلق ہے اور ہر چیز اسی کے اختیار اور اسی کے ہاتھ میں اور ہر سیاہ و سفید کا وہی مالک ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مخلوق اپنی مرضی سے کام کرے اور کائنات میں تبدیلی لائے؟ کیا اس صورت میں خدائی ربوبیت کی خلاف ورزی نہیں ہوتی؟
اس کا جواب یہ ہے: کسی بھی عمل کو انجام دینے کے لیے سب سے پہلے اس عمل کو انجام دینے کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر اختیاری عمل اسی وقت انجام پاتا ہے جب اللہ تعالیٰ اسے چاہے اور اسے انجام دینے کی قدرت و طاقت عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ کسی بھی مرحلے میں اس عمل کی انجام دہی کو عطا نہ کرکے اس کی انجام دہی کو روک سکتا ہے، اس لیے صاحبان اختیار کا اختیار کبھی بھی تفویض کی جانب نہیں جاتا اور رب العزت کے دائرۂ ربوبیّت سے نکلنے کا باعث نہیں بنتابلکہ، وہ اس کے تحتِ مشیّت و ربوبیّت رہتے ہوئے ہی کسی بھی عمل کو انجام دینے پر قادر بنتے ہیں۔
لہٰذا، خدا کی طرف سے عمل کی انجام دہی کی صلاحیت کو اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہوئے اور ایک خودمختار فاعل کے وجود کے اصول کے ساتھ، جو کہ خود مشیّتِ خدا کی وجہ سے ہے،خدا کی کائنات پر ربوبیّتِ تکوینی اور حاکمیت محفوظ رہتی ہے اور کوئی بھی عمل اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر ظہور نہیں پیدا کرتا اور نہ ہی وجود میں آتا ہے، اور بندوں کے ارادے و اختیار کے ہمراہ خود ان کے توسط سے انجام پائے کام انھیں سے منسوب ہوتے ہیں اور وہ خود اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سجدہ (32/5۔
Add new comment