مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کا شمار ان اہم مسائل میں سے ہے جس کی خدا کے کلام (قران کریم) اور رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث میں بہت تاکید کی گئی ہے ، امام علی علیہ السلام نے اسلامی اتحاد کو خدا کی نعمتوں اور اس کی عنایتوں میں سے شمار کیا ہے اور اپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قران کریم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت کے دائرہ میں اسلامی معاشرہ کو متحد کیا جاسکتا ہے ، حضرت علیہ السلام نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر باقی رکھنے اور انہیں اختلافات سے محفوظ رکھنے کی انتھک کوشش کی ۔
اج کے دور میں جبکہ عالمی سامراجیت نے عالم اسلام اور بعض اسلامی ممالک کو نشانہ بنا رکھا ہے مختلف معاشرے اور سماج میں مسلمانوں کی کامیابی فقط اتحاد و یکجہتی کے زیر سایہ ممکن ہے ۔
اسلامی اتحاد وہ اہم اور بنیاد مسئلہ ہے جو ماضی میں بھی مسلمانوں کے مورد توجہ رہا ، قران کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی روشن ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کے تمام فکری ، اعتقادی اور عملی انحرافات ، فاسد اجنبی طاقتوں یا مسلمانوں کی نادانی و جہالت کی وجہ سے پیدا ہوا ۔
خداوند متعال نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو اتحاد و یکجہتی اور ایک دوسرے سے الفت و محبت کی دعوت دی فرمایا : «وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ؛ االلہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور اپس میں تفرقہ و اختلاف نہ کرو» (۱)
رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے بھی مسلمانوں کو اتحاد و یکجہتی کے تحفظ اور تفرقہ و اختلاف سے پرھیز کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا : اے لوگوں ! متحد رہو کہ خدا کی مدد متحد اور ایک جٹ رہنے میں ہے اور ہرگز اختلاف و تفرقہ نہ کرو ۔ (۲)
آنحضرت (ص) نے اسی بنیاد پر مدینہ پہنچے کے بعد مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان معاہدہ منعقد کیا کہ جس کا مقصد فقط و فقط یہ تھا کہ مدینہ میں رہنے والوں اور وہاں کے معاشرہ میں کسی قسم کا اختلاف نہ ہو۔
رسول خدا (ص) نے اپنی ایک گفتگو میں اسلامی معاشرہ کو ایک جسم سے تعبیر کیا اور فرمایا : شفقت و مہربانی کے لحاظ سے مومنین کی شباہت ایک جسم اور ایک بدن کے مانند ہے ، جس وقت انسان کے جسم کے کسی حصہ کو تکلیف ہوتی ہے دوسرے حصے اور ٹکڑے کو بھی اس کی تکلیف پہنچتی ہے ، وہ درد و کرب و تکلیفیں اٹھاتے ہیں اور نیند حرام ہوجاتی ہے ۔ (۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ آلعمران، ایت ۱۰۳۔
۲: متقی هندی ، علاء الدین علی بن حسام ، کنزالعمال، ج ۱، ص ۲۰۶۔
۳: مجلسی ، محمد باقر، بحارالانوار، ج ۱۵، ص۲۸۷۔
Tags:
Add new comment