جناب سلمان فارسی ایران سے تعلق رکھنے والے وہ جلیل القدر صحابی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امیرالمومنین علیہ السلام کے شیدائی اور آپ سے عقیدت رکھنے والی ذات ہیں ، روایات میں آپ کی بہت تجلیل واقع ہوئی ہے حتی کہ بعض روایات میں آپ کو جناب لقمان حکیم سے برتر جانا گیا ہے ، (۱) اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو اپنے اہلبیت میں سے قرار دیا ہے ، آپ فرماتے ہیں سلمان منا اھل البیت (۲) ، اسی طرح آپ سلمان محمدی کہہ لائے ، جناب شیخ صدوق (رح) بیان کرتے ہیں کہ آپ نے کبھی بھی غیر خدا کے سامنے سجدہ نہیں کیا ۔ (۳)
روایات میں آپ کی ایک خصوصیت حقیقت طلبی بیان ہوئی ہے ، (۴) اور اسی طرح آپ کی ذات کے اندر ہمیشہ حق کی تلاش اور حق کے سامنے خاضع ہونا حق کی طرفداری کا جذبہ پایا جاتا تھا ، اور اسی جذبہ کے تحت آپ نے متعدد سفر انجام دئے اور آخر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات پر ایمان لائے اور اسلام قبول کیا ۔ (۵)
جناب سلمان محمدی نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کا ساتھ دیا ، آپ کی امامت کا دفاع کیا نیز سقیفہ میں پیش آنے والے افسوسناک حادثہ کے خلاف کھڑے ہوئے اور حضرت ابوبکر کی خلافت کی مخالفت کی ۔ (۶)
بیان ہوا کہ جناب سلمان ، مقداد ، ابوذر ، عبادة بن صامت ، ابوهیثم التیهان ، حذیفه یمانی اور جناب عماریاسر جب سقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ پیش آیا تو اسی رات یہ افراد جمع ہوئے تاکہ خلافت کے مسألہ کو دوبارہ مہاجرین کی کمیٹی میں بررسی کریں ، جناب سلمان نے اس واقعہ کے خلاف کافی استدلالات اور احتجاجات پیش کئے ، (۷) جناب سلمان کا یہ جملہ مشہور ہے جو آپ نے ارشاد فرمایا : لَو بايَعوا عَلِيّا لَأَكَلوا مِن فَوقِهِم و مِن تَحتِ أرجُلِهِم ؛ اگر لوگ علی کی بیعت کر لیتے تو ان پر آسمان اور زمین سے برکتین نازل ہوتیں ۔ (۸)
جناب سلمان ، حضرت عمر کے زمانہ میں ایران پر فتح اور کامیابی میں شریک ہوئے آپ کو مدائن کا گورنر بنایا گیا لیکن آپ نے وہاں بہت زاہدانہ زندگی گذاری اور اسی طرح آپ نے ایران میں شیعیت اور اہلبیت علیہم السلام کی تبلیغ کی ۔ (۹)
روایات میں آپ کے بہت فضائل ذکر ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: شیخ صدوق ، کمال الدین ، ج۱ ، ص۱۶۵.
۲: طبرسی، احتجاج ، ص ۱۱۰ ؛ و ابن اثیر، اسد الغابہ ، ج ۲ ، ص ۲۶۹ ؛ و واقدی ، مغازی ، ج ۱، ص ۴۴۶ - ۴۴۷ ۔
۳: ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج ۱۸، ص ۳۸ ۔
۴: ابنهشام، السیرة النبویۃ، ج۱، ص۲۲۰ ؛ و خطیب بغدادی ، تاریخ بغداد ، ج۱، ص۱۸۰ ؛ و مقدسی، البدء و التاریخ ، ج۵ ، ص۱۱۲۔
۵: ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغۃ ، ج۱، ص۲۱۹-۲۲۰؛ و بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۵۹۱؛ و جوهری بصری، السقیفۃ و فدک ، ص۴۳ ؛ و عاملی، جعفر مرتضی، سلمان فارسی، ص۳۵۔
۶: ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغۃ، ج ۱ ، ص ۲۱۹ –۲۲۰۔
۷: طبرسی ، احمد بن علی ، الاحتجاج علی أهل اللجاج، ج ۱، ص ۱۱۰ – ۱۱۲۔
۸: بلاذری ، أنساب الأشراف ، ج ۱، ص ۵۹۱ ۔
۹: محمدی اشتھاردی ، محمد ، ایرانیان مسلمان در صدر اسلام ، ص ۲۰۱ ۔
Add new comment