ہم سب سے پہلے گیارہوں امام حسن عسکری علیہ السلام کی شھادت پر اپ تمام عقیدت مندوں کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہیں ۔
ہر امام وقت کی طرح امام حسن عسکری علیہ السلام کے وظائف میں سے اپ کا ایک اہم وظیفہ بعد کے امام کی معرفی تھی تاکہ شیعہ معاشرہ اپنے وقت کے امام کو پہچان سکے ، یہ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ ایک طرف دشمن اپ کے بعد کے امام کی تلاش میں ہے تاکہ انہیں شھید کرسکے اور دوسری جانب شیعہ بے وارث نہ رہ جائیں ، چونکہ مختلف روایتیں اس بات کی بیانگر ہیں کہ خاندان اہلبیت علیھم السلام میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوگا جو دشمن کی بنیادیں ہلادے گا اور اپنے والد و اجداد کے مانند ظالم و جابر اور ستمگاروں کی بیعت نہ کرے گا ۔
اسی بنیاد پر دشمن نے مکمل کوشش کی حضرت کی ولادت کو روک سکیں اور حتی امام حسن عسکری علیہ السلام کے قتل کی سازش رچی ، (۱) روایات میں اپ کی ولادت کو حضرت موسی کی ولادت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ (۲)
1- معاویة بن حکیم کہتے ہیں : ہم اور محمد بن ایوب بن نوح اور محمد بن عثمان عمری ابومحمد حسن بن علی(ع) کے بیت الشرف میں تھے ، حضرت نے ہم چالیس افراد کی موجودگی میں اپنے فرزند کی معرفی فرمائی اور فرمایا : «هَذَا إِمامُکُمْ منْ بَعْدِی وَ خَلِیفَتِی عَلَیْکُمْ أَطِیعُوهُ وَ لَا تَتَفَرَّقُوا مِنْ بَعْدِی فِی أَدْیَانِکُمْ فَتَهْلِکُوا أَمَا إِنکُمْ لَا ترَوْنَهُ بعْدَ یَوْمِکُمْ هَذَا ؛ یہ میرے بعد تمھارے امام اور خلیفہ ہیں ان کی اطاعت کرو ، میرے بعد ہرگز دین میں اختلاف نہ کرنا کہ ہلاک ہوجاؤگے ، آگاہ رو کہ آج کے بعد انہیں نہ دیکھ سکو گے » ۔
2- احمد بن اسحاق جن کا تعلق قم ایران سے تھا اور اپ حضرت امام عسکری (ع) محرم راز تھے کہتے ہیں کہ میں امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپ سے بعد کے امام کے سلسلہ میں دریافت کرنا چاہ رہا تھا ، حضرت علیہ السلام نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور فرمایا: «اے احمد ! خداوند متعال نے حضرت ادم سلام اللہ علیہ کے زمانہ سے زمین کو خالی نہیں چھوڑا ہے اور قیامت تک حجت خدا سے زمین کو خالی نہ چھوڑے گا ، اس کے وسیلہ اہل زمین کی بلائیں دور کرتا ہے ، اس کے وسیلہ پانی برساتا ہے اور اس کے وسیلے زمین کی برکتیں و نعمتیں باہر لاتا ہے» ۔ (۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: صدوق ، شیخ محمد بن علی بن الحسین ، کمال الدین و تمام النعمة، ج ۲، ص ۴۰۸ ۔
۲: محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، ج ۵۱، ص ۲۲۱ ۔
۳: اصول کافی، محمد بن یعقوب کلینی، ج ۱، ص ۳۲۸ ۔
Add new comment