شرکِ بَیّن کے مقابلے میں شرک کا ایک اور درجہ پایا جاتا ہے جسے شرکِ خفی کہتے ہیں۔ اس قسم کا شرک کسی پختہ اور مستحکم عقیدہ سے ماخوذ نہیں ہوتا، بلکہ انسان غفلت و نادانی-اور بھول چوک-اور ارادے کی کمزوری کی وجہ سے کچھ ایسے اعمال کا ارتکاب کربیٹھتا ہے جس کے نتیجے میں خدا کے احکام و ممنوعات اور اس کے اوامر و نواہی پسِ پشت پڑ جاتے ہیں، خواہشات نفسانی غالب آجاتی ہے اور انسان شیطان کی پیروی کرنے لگتا ہے۔ شرکِ خفی کا دائرہ بہت وسیع ہے، جن میں سے کچھ کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔
شرکِ بَیّن کے مقابلے میں شرک کا ایک اور درجہ پایا جاتا ہے جسے شرکِ خفی کہتے ہیں۔ اس قسم کا شرک کسی پختہ اور مستحکم عقیدہ سے ماخوذ نہیں ہوتا، بلکہ انسان غفلت و نادانی-اور بھول چوک-اور ارادے کی کمزوری کی وجہ سے کچھ ایسے اعمال کا ارتکاب کربیٹھتا ہے جس کے نتیجے میں خدا کے احکام و ممنوعات اور اس کے اوامر و نواہی پسِ پشت پڑ جاتے ہیں، خواہشات نفسانی غالب آجاتی ہے اور انسان شیطان کی پیروی کرنے لگتا ہے۔ شرکِ خفی کا دائرہ بہت وسیع ہے، جن میں سے کچھ کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔
الف) اعمال و اطاعت میں شرک
روایات میں استعمال ہونے والے عنوانات میں سے ایک عنوان اعمال و اطاعت میں شرک ہے۔ اس شرک سےمراد بغیر خدا کی اجازت کے کسی اور کی اطاعت اور گناہوں کا ارتکاب ہے، اور جیسا کہ ہم نے کہا : ایسی صورتوں میں یہ ہوتا ہے کہ خدا کے حکم کو جو کہ لازم الاتباع ہے یعنی اس کے فرمان پر عمل کرنا واجب ہے اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور دوسرے کےحکم کو کہ جس کے بارے میں اپنی طرف سے یہ گمان کرلیا گیا ہے کہ اس کا قبول کرنا لازم و ضروری ہے؛ پیروی کی جانے لگتی ہے لہٰذا ایسا کرکے انسان معصیت و گناہ کا مرتکب بھی ہوتا ہے اور شرک سے بھی دوچار ہوجاتا ہے:
«...أَمَّا الْوَجْهُ الثَّانِي مِنَ الشِّرْكِ فَهُوَ شِرْكُ الْأَعْمَالِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى:﴿وَ ما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَ هُمْ مُشْرِكُونَ﴾[1] وَ قَوْلُهُ سُبْحَانَهُ﴿اتَّخَذُوا أَحْبارَهُمْ وَ رُهْبانَهُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾[2] أَلَا إِنَّهُمْ لَمْ يَصُومُوا لَهُمْ وَ لَمْ يُصَلُّوا وَ لَكِنَّهُمْ أَمَرُوهُمْ وَ نَهَوْهُمْ فَأَطَاعُوهُمْ وَ قَدْ حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ حَلَالًا وَ أَحَلُّوا لَهُمْ حَرَاماً فَعَبَدُوهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ فَهَذَا شِرْكُ الْأَعْمَالِ وَ الطَّاعَاتِ. »[3]
شرک کی ایک دوسری صورت، شرکِ اعمال ہے۔ خدائے متعال کا ارشاد ہے:"اور ان میں کی اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ " اور ارشاد ہے: "ان لوگوں نے اپنے عالموں اور راہبوں کو، خدا کو چھوڑ کر اپنا رب بنالیا ہے"حالانکہ لوگ ان کے لیے روزے یا نماز نہیں پڑھتے تھے، لیکن پھر بھی چونکہ ان راہبوں اور علماء نے امر و نہی کی ذمہ داری اٹھا رکھی تھی اور یہ لوگوں کو امر و نہی کیا کرتے تھے اور لوگ بھی ان کی بات سنتے اور اطاعت کرتے تھے اسی لیے اس کو ڈھال بناتے ہوئے ان راہبوں اور علماء نے حلالِ خدا کو لوگوں پر حرام اور حرامِ خدا کو لوگوں پر حلال کردیا ، اس طرح لوگ نادانی میں ان راہبوں اور علماء کی عبادت میں مبتلا ہوگئے۔ یہ شرکِ اعمال و اطاعت ہے۔
«...وَ الْمَعَاصِي الَّتِي تَرْكَبُونَ مِمَّا أَوْجَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا النَّارَ شِرْكُ طَاعَةٍ؛ أطَاعُوا الشَّیْطَانَ وَ أشْرَکُوا بِاللّهِ فِي طَاعَتِهِ...»[4]
...اور ایسے سارے گناہ جن کی وجہ سے خدا نے ان پر جہنم واجب کر دی ہے، وہ شرکِ اطاعت ہے۔ (ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والے)انھوں نے شیطان کی اطاعت کی ہے اور خدا کی اطاعت میں اس کے ساتھ شرک سے کام لیا ہے...۔
ب) خدا کے علاوہ دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ
ایک اور چیز جسے روایتوں میں شرک کے طور پر بیان کیا گیا ہے وہ ہے اسباب و آلات پر اعتماداور بھروسہ اس بات سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی ان اسباب و ذرائع میں یہ طاقت و قدرت رکھی ہے:
« عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي قَوْلِهِ:﴿وَ ما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَ هُمْ مُشْرِكُونَ﴾[5] قَالَ: هُوَ الرَّجُلُ يَقُولُ: لَوْ لَا فُلَانٌ لَهَلَكْتُ، وَ لَوْ لَا فُلَانٌ لَأُصِبْتُ كَذَا وَ كَذَا، وَ لَوْ لَا فُلَانٌ لَضَاعَ عِيَالِي، أَ لَا تَرَى أَنَّهُ قَدْ جَعَلَ لِلَّهِ شَرِيكاً فِي مُلْكِهِ يَرْزُقُهُ وَ يَدْفَعُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: فَيَقُولُ: لَوْ لَا أَنَّ اللَّهَ مَنَّ عَلَيَّ بِفُلَانٍ لَهَلَكْتُ قَالَ: نَعَمْ لَا بَأْسَ بِهَذَا »[6]
امام صادق کا اس آیت: " اور ان میں کی اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ " کے بارے میں یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں:اس سے مراد وہ انسان ہے جو کہتا ہے: اگر فلاں نہ ہوتا تو میں ہلاک ہوجاتا، اگر فلاں نہ ہوتا تو مجھ پر آفت ٹوٹ پڑتی،اگر فلاں نہ ہوتا تو میرا خاندان ہلاک ہوجاتا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس نے خدا کے لیے اس کی بادشاہی میں ایک شریک مقرر کر رکھا ہے جو اس کے حساب سے اسے رزق دیتا ہے اور اس سے بلاؤں کو دور کرتا ہے؟۔ راوی کہتا ہے: میں نے پوچھا: آپ کا اس بارے میں کیا بیان اگر کہا جائے: اگر خدا نے مجھے فلاں کے وسیلے سے نوازا نہ ہوتا تو میں ہلاک ہو جاتا؟ آپؑ نے فرمایا: ہاں، اس میں کوئی حرج نہیں۔
جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے: شرکِ خفی کا دائرہ ایسا ہے کہ ہمیں اپنے بولنے کے انداز اور اسباب و ذرائع پر بھروسہ کرنے میں بھی کافی محتاط رہنا چاہیے۔ واضح ہے کہ ایسا بھروسہ اور توکل اور ایسی باتیں ابھی پختہ یقین و عقیدے کی منزل تک نہیں پہنچی ہیں بلکہ غفلت و نادانی کی وجہ سے ایک مشرک جیسا فعل جو خدا کو نہیں مانتا انسان سے صادر ہوگیا ہے اس لیے اس کا شمار ابھی اس مرحلے میں شرکِ بَیّن میں نہیں ہوگا۔
لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ: اس عمل کا جو لازمی و حتمی نتیجہ نکلے گا اس میں ان اسباب و ذرائع کے لیے ایک قسم کی خودمختاری واستقلال کا تصوّر پایا جائے گااسی لیے یہ عمل ایک شرک آلود عمل کہلائے گا اور ایک مشرکانہ عمل ہوگا۔[7]
ج) شرکِ رِیا
شرکِ خفی کے مصادیق میں شامل رِیا اور دکھاوا بھی ہے جس سے اجتناب پر ائمہسے منقول روایتوں میں تاکید کی گئی ہے اور مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہےکہ وہ اس سے ہوشیار رہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ رِیا شرک ہے۔ کیونکہ رِیا میں گرفتار انسان عبادت کرتے وقت محض رضائے الٰہی کا خیال کرنے کے بجائے رضائے الٰہی سے بے نیاز غیر خدا کی خوشنودی اور حمد کا طالب ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ اس کی نماز، روزہ اور دیگر نیک اعمال کو دیکھیں اور اس کی تعریف کریں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے کہ صرف اس کے ہی تقرّب کی فکر کی جائے۔ البتہ اس قسم کا شرک بھی شرکِ اعمال و اطاعت کے زمرے میں آئے گا، لیکن مزید تاکید کے لیے روایات میں ایک مستقل عنوان سے اس کا نام ذکر کیا گیا ہے:
« لَوْ أَنَّ عَبْداً عَمِلَ عَمَلًا يَطْلُبُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ الدَّارَ الْآخِرَةَ فَأَدْخَلَ فِيهِ رِضَى أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ كَانَ مُشْرِكاً.»[8]
اگر کوئی بندہ کوئی ایسا عمل انجام دیتا ہے جس سے وہ خدا کی توجہ و تقرّب اور آخرت کا طلبگار ہو جب کہ ساتھ ہی اپنے اس عمل کی نیت میں کسی اور کی بھی رضامندی و خوشنودی کے حصول کی نیت شامل کرلے تو ایسا شخص مشرک ہے۔
«أَنَا خَيْرُ شَرِيكٍ مَنْ أَشْرَكَ مَعِي غَيْرِي فِي عَمَلٍ عَمِلَهُ لَمْ أَقْبَلْهُ إِلَّا مَا كَانَ لِي خَالِصا »[9]
میں بہترین شریک ہوں۔ اگر کوئی اپنے کاموں میں میرے علاوہ کسی اور کو شریک کرے گا تو میں اس کے عمل کو قبول نہیں کروں گا مگر اتنی ہی مقدار میں کہ جو صرف میرے ہی لیے پورے خلوص نیّت سے انجام دیا گیا ہوگا۔
میں بہترین شریک ہوں اگر کوئي کسی عمل کو انجام دے رہا ہے میرے علاوہ کسی کو شریک کرے اس کو قبول نہیں کروں گا مگر ان کو جو ( کامل طور سے ) میرے لئے خالص ہو ۔
یہ روایتیں رِیا کے گھناؤنے پن اور اس کی خرابی کو اچھی طرح بیان کرتی ہیں اور یہ کہ اگر کسی عبادت میں ناپاک غیر خدائی نیّت کا کوئی ایک ذرّہ بھی داخل ہو جائے تو وہ عمل خدا کے نزدیک بالکل بے فائدہ اور بے کار ہو گا اور اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوگی۔
................
منابع و مأخذ
[1] یوسف(12)/106۔
[2] توبہ(9)/31۔
[3] بحار الانوار ، 93 / 61 ، تفسیر نعمانی سے منقول۔
[4] تفسیر عیاشی ، 2/199 ، ح95۔
[5] یوسف(12)/106۔
[6] تفسیر عیّاشی 2/ 200 ، ح96۔
[7] شرک کی بحث میں اس بات کی یاددہانی ضروری ہے کہ ، غفلت کی وجہ سے ہونے والی بھول چوک شرک کے دائرہ میں نہیں آئے گی لیکن بے پروائی سے سب کچھ کیے جانا اور کسی بھی چیز پر کوئی توجہ نہ دینا ساتھ ہی ضعفِ نفس کا مظاہرہ کرنا اور بدعقیدتی میں خود کو مبتلا رکھنا یہ سب شرک میں مبتلا ہونے کے عوال و اسباب ہیں۔
[8] ثواب الاعمال وعقاب الاعمال ( مترجم ) صدوق / 550 باب من عمل عملاً یطلب بہ...۔
[9] کافی 2/295 ،کتاب الایمان والکفر ، باب الریاء ، ح9۔
Add new comment