اج کے دور میں سعودی عربیہ میں بہت کم ایسے گھرانے دیکھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے اپنے بچے کا نام «محمد» نہ رکھا ہو اور معمولا دنیا میں یہ نام پیٹر اور جان سے زیادہ رکھا گیا ہے ، حضرت محمد مصطفی صلى الله على وآلہ وہ فرد فرید ہیں جنہوں نے عربوں کے درمیان اتحاد قائم کیا ، قبائل کو ایک پرچم تلے اکٹھا فرمایا ، فقط عرب دنیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اپ کے ظھور کی منتظر تھی ، اپ نے طاقت کے بل بوتے پر عرب دنیا میں اتحاد قائم نہیں کیا بلکہ اپنے حسن گفتار و کردار اور حَسِین سیرت سے لوگوں کے دل جیتے تاکہ لوگ خود اپ کی اطاعت و پیروی کریں اور اپ کی دعوت پر لبیک کہیں ، بلا شک اس بات کو کہا جاسکتا ہے کہ «فرزند مکہ» میں وہ الھی اور اخلاقی جلوہ گری موجود تھی جو دیگر الھی انبیاء اور اولیاء میں نہ تھی ، اپ کے پاس وہ طاقت اور توانائی تھی جو بچھڑے دلوں کو جوڑ دیتی اور انہیں متحد کردیتی کہ جیسے دو جسم اور ایک جان ہوں ۔
کتاب المعلم الاکبر کے مصنف مسٹر ہیوبرٹ ول تحریر کرتے ہیں : حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ و سلم حضرت عیسی مسیح کے ۶۰۰ سال بعد دنیا میں تشریف لائے ، اپ نے اپنی الھی طاقت کے وسیلے لوگوں کے ذھنوں سے شک و شبہات کی تاریکیاں مٹا دیں ، بت پرستی اور شرکت پرستی کی بنیادیں ڈھادیں ، اپ صادق و سچے اور دیانت دار انسان تھے کہ لوگ انہیں «محمد امین» کہا کرتے تھے ، اپ انہیں خصوصیت کی بنا پر لوگوں کو راہ راست و ہدایت پر لانے میں کامیاب ہوگئے ۔
لارینٹیا ڈالبیری دانشور خاتون تحریر کرتی ہیں:
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ و سلم ، اسلامی حکومت کے عظیم رہبر و لیڈر ہمیشہ اپنی قوم کی اسائش و ازادی کا خیال رکھتے تھے ، جنایتکاروں کو سزا دیتے تھے ، لوگوں کو ایک خدا کی دعوت دیتے تھے اور دین توحیدی کی تبلیغ فرماتے تھے ، اپنے دین کی تبلیغ میں حتی دشمن کے ساتھ بھی پیار و محبت سے پیش اتے تھے ، اپ کے اندر انسانی صفات میں سے دو اہم صفت موجود تھی ایک عدل تو دوسرے رحمت ۔
ہنری میس تحریر کرتے ہیں:
اگر ہم پیغمبر اسلام کے بارے میں مختصر گفتگو کریں تو ایک ایسا وجود اور کردار ہے جو ہمہ وقت غور و فکر میں رہتا ہے، ایک ایسی روح اور جان جو اپنی قوم کے لئے فکرمند ہے ، ہمارے سامنے مجسم ہوتی ہے ، تاہم ان کے سلسلہ میں ہمارے پاس موجود دستاویزات انہیں موحد ، آخرت پر یقین و ایمان رکھنے والا ، مہربان و شفیق ، حکمران، منتظم، سیاست دان، جنگجو ،شدت پسندی اور فساد سے کوسوں دور، امن و آشتی اور سلامتی کے خواہاں ، ثابت کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
Add new comment