اتحاد نھج البلاغہ میں

Sun, 09/01/2024 - 17:29

امیرالمومنین علی ابن طالب علیہ السلام فرماتے ہیں: فَانْظُرُوا کَیْفَ کَانُوا حَیْثُ کَانَتِ الاْمْلاَءُ مُجْتَمِعَةً، وَ الاْهْوَاءُ مُؤْتَلِفَةً، وَ الْقُلُوبُ مُعْتَدِلَةً، وَ الاْیْدِی مُتَرَادِفَةً، وَ السُّیُوفُ مُتَنَاصِرَةً، وَ الْبَصَائِرُ نَافِذَةً، وَ الْعَزَائِمُ وَاحِدَةً. أَلَمْ یَکُونُوا أَرْبَاباً فِی أَقْطَارِ الاْرَضِینَ، وَ مُلُوکاً عَلَى رِقَابِ الْعَالَمِینَ!

یاد کرو کہ «قوم بنی اسرائیل» کیسے تھے جب تک ان کے اجتماعات یکجا رہے ، ان کے خواہشات میں اتفاق رہا ، ان کے دل معتدل رہے ، ان کے ہاتھ ایک دوسرے کی امداد کرتے رہے ، ان کی تلواریں ایک دوسرے کے کام آتی رہیں ، ان کی بصیرتیں نافذ رہیں ، ان کے عزائم میں اتحاد رہا ، وہ کس طرح با عزت رہے ، کیا وہ تمام اطراف زمین کے ارباب اور تمام لوگوں کی گردنوں کے حکام نہیں تھے۔

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا یہ خطبہ عالم اسلام کیلئے کہ عظیم درس ہے کہ اپ نے فرمایا : بنی اسرائیل کے حالات سے عبرت حاصل کرنا چاہئے کہ انہیں قیصر و کسریٰ اور دیگرسلاطین زمانہ نے کس قدر ذلیل کیا و رسوا کیا اور کیسے کیسے بد ترین حالات سے دوچار کیا ، صرف اس لئے کہ ان کے درمیان اتحاد نہیں تھا اور وہ خود بھی برائیوں میں مبتلا تھے اور دوسروں کو بھی برائیوں سے روکنے کا خیال نہیں رکھتے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ پروردگارنے انہیں اس عذاب میں مبتلا کردیا اور ان کا یہ تصور مہمل ہو کر رہ گیا کہ ہم اللہ کے منتخب بندے اور اس کی اولاد کا مرتبہ رکھتے ہیں ، دورحاضر میں مسلمانوں کا یہی عالم ہے کہ صرف امت وسط کے نام پر جھوم رہے ہیں ، اس کے علاوہ ان کے کردار میں کسی طرف سے اعتدال کی کوئی جھلک نہیں ہے ، ہر طرف انحراف ہی انحراف اور کجی ہی کجی نظرآتی ہے ، نہ کہیں «وحدت کلمہ» ہے اور نہ کہیں «اتحاد کلام» ، اختلافات کا زور رہے اور دشمن کی حکمرانی، آپس کا جھگڑا ہے اور غیروں کی غلامی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ :

۱: نہج البلاغۃ ، خطبہ 192 ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 50