(موسیقی قران کریم کی نظر میں)
کم و بیش معاشرہ کی اکثریت موسیقی (میوزک) کے مسئلہ سے روبرو ہے ، اگر چہ دینی معاشرہ پوری طاقت کیساتھ خود کو موسیقی سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر نئی نسل اور جوانوں کا ایک بڑا طبقہ خواہ نخواہ اس سماجی مشکل میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔
نفسیات کے ماہرین موسیقی کو روح و نفسیات سے متعلق اور مربوط جانتے اور اسے روح کے سکون کا سبب سمجھتے ہیں، ہم اسی نظریہ کے تحت جب روح کو اسلامی منابع اور قران کریم میں تلاش کرتے ہیں تو ہمیں یہ ملتا ہے کہ خدا ، اس کے رسول (ص) اور اماموں سے زیادہ بہتر روح کی شناخت کسی پاس بھی نہیں ہے جیسا کہ قران کریم نے فرمایا "وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا ؛ [اے پیمغبر] اپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو فرما دیجئے کہ روح حکم الھی ہے اور کچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ بہت مختصر سا علم ہے" (۱)
کتاب بحار الأنوار میں ابو بصير سے منقول ہے کہ جب سائل نے حضرت امام محمد باقر یا حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام سے اس ایت «و يَسْألُونَكَ عنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِن أمْرِ رَبِّي» کے سلسلہ میں سوال کیا تو حضرت نے فرمایا "التي في الدَّوابِّ و الناسِ . قلتُ : و ما هِي ؟ قالَ : هِي مِنَ المَلَكُوتِ ، مِنَ القُدرَةِ ؛ وہی جو جاندار انسانوں اور چارپایوں کے بدن میں ہے" پھر میں نے سوال کیا کہ وہ کیا ہے ؟ تو فرمایا " وہ [روح] کا تعلق عالم ملکوت اور عالم قدرت سے ہے" (۲)
لہذا اگر روح کے سکون اور اس کی آرامش کا مسالہ ہے تو پھر خدا ، اس کے رسول اور اس کے اولیاء الھی سے بہتر، کوئی بشر اس بات سے آگاہ نہیں ہے کہ کیا چیز روح کے سکون کا سبب اور کیا چیز روح کے اضطراب و پریشانی کا باعث بنتی ہے ۔
قران کریم نے سورہ لقمان میں موسیقی کو روح کے سکون کا سبب نہیں بلکہ موسیقی سننے کی شید الفاظ میں مذمت کی ہے "وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ ؛ اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوجھ بوجھ کے لوگوں کو اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ان ہی لوگوں کیلئے رسوا کن عذاب ہے " (۳) ، مفسرین قران کریم نے اس مقام پر " لَهْوَ الْحَدِيثِ" سے مراد موسیقی لیا ہے ۔
اور ایک دوسری ایت کریمہ میں ارشاد ہے " فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ؛ سو تم بتوں کی پلیدی سے بچا کرو اور جھوٹی بات سے پرہیز کیا کرو" (۴) مفسرین کرام نے اس مقام پربھی " قَوْلَ الزُّورِ" سے مراد موسیقی لیا ہے ۔
ایک اور ایت کریمہ میں ارشاد ہوا کہ " وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ؛ اور[ مومنین وہ ہیں] جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں" (۵) ، یقینا موسیقی وہ لغو اور بیہودہ چیز ہے جس سے مومنین کو دور ہی رہنا چاہئے ۔
نیز سورہ فرقان میں ارشاد فرمایا "وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا ؛ اور (یہ) لوگ [ اللہ کے بندے] وہ ہیں جو باطل کاموں میں حاضر نہیں ہوتے اور جب کسی لغو و بے ہودہ چیز کا سامنا ہوتا ہے (دامن بچا کر) نہایت وقار اور متانت کے ساتھ گزر جاتے ہیں" (۶) ، اس مقام پر بھی مفسرین نے "الزور اور الغو" کو موسیقی سے تعبیر کیا ہے ۔
جاری ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: سوره اسراء ، آیہ 85
۲: مجلسی ، محمد باقر ، بحار الأنوار ۶۱/۴۲/۱۴
۳: سورہ لقمان ایت ۶
۴: سورہ حج ایت ۳
۵: سورہ مومنون ، ایت ۳
۶: سورہ فرقان ایت ۷۲
خلاصہ : نفسیات کے ماہرین موسیقی کو روح و نفسیات سے متعلق اور مربوط جانتے اور اسے روح کے سکون کا سبب سمجھتے ہیں مگر اسلام منابع اور قران کریم خدا کے ذکر کو روح کے چین اور سکون کا سبب بتاتے ہیں ۔
Add new comment