توحید ذات اور توحید صفات

Wed, 01/26/2022 - 06:06

توحید کا ایک واضح اور فطری مطلب ہے، اور وہ ہے خدا کو ایک جاننا اور غیر خدا کو خدا سے تشبیہ دینے سے انکار کرنا۔ لیکن عقائد کی کتابوں میں توحید کے موضوع پر مختلف زاویوں سے بحثیں موجود ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنے اپنے لحاظ سے  ایک جہت میں تشبیہ کی نفی کو واضح کرتی نظر آتی ہیں ۔ ہم بھی توحید کے موضوع پر موجود  رائج تقسیم بندی کے اعتبار سے ہی  بحث  کو آگے بڑھائیں گے۔ توحید کی مشہور تقسیموں میں سے ہم  توحید ذات، توحید صفات وغیرہ کا ذکر کر سکتے ہیں۔ علمِ کلام میں استعمال ہونے والی ان اصطلاحات کی کوئی عقلی یا نقلی حدود نہیں ہیں اور یہ ایک دوسرے سے بالکل الگ اور مستقل بھی نہیں ہیں۔

توحید ذات اور توحید صفات

توحید کا ایک واضح اور فطری مطلب ہے، اور وہ ہے خدا کو ایک جاننا اور غیر خدا کو خدا سے تشبیہ دینے سے انکار کرنا۔ لیکن عقائد کی کتابوں میں توحید کے موضوع پر مختلف زاویوں سے بحثیں موجود ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنے اپنے لحاظ سے  ایک جہت میں تشبیہ کی نفی کو واضح کرتی نظر آتی ہیں ۔ ہم بھی توحید کے موضوع پر موجود  رائج تقسیم بندی کے اعتبار سے ہی  بحث  کو آگے بڑھائیں گے۔ توحید کی مشہور تقسیموں میں سے ہم  توحید ذات، توحید صفات وغیرہ کا ذکر کر سکتے ہیں۔ علمِ کلام میں استعمال ہونے والی ان اصطلاحات کی کوئی عقلی یا نقلی حدود نہیں ہیں اور یہ ایک دوسرے سے بالکل الگ اور مستقل بھی نہیں ہیں۔

توحید ذات

توحید ذات کا مطلب یہ ماننا ہے کہ خدا کی ذات کا کوئی  نظیر اور مثل نہیں ہے :

﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ ﴾.[1]

اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے ۔

)بَانَ‏ مِنَ‏ الْخَلْقِ‏ فَلَا شَيْ‏ءَ كَمِثْلِهِ)[2]

مخلوقات سے مختلف ہے لہٰذا کوئی چیز اس کے جیسی نہیں ہے ۔

زیادہ واضح طور پر: اگر ذاتِ الٰہی کے لیے مِثل و نظیر  مان لیا جائے تو وہ خدا نہیں رہے گا، کیونکہ خدا کی خدائی کا تقاضہ انفرادیت اور اپنے غیر سے عدمِ مشابہت  ہے، چنانچہ خدا کی وحدانیت اور اس کا ایک اور یکتا ہونا  عددی وحدت والی وحدانیت نہیں ہے۔ یعنی اس  سے مراد یہ نہیں ہے کہ خدا  ایک قسم کے موجودات میں سے ہے اور اس سے صرف ایک ہی فرد نکل کر سامنے آئی ہے اور وہ خدا ہے۔ توحید کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ: اوّلا: خدا کی کوئی شبیہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی نظیر ہے اور نہ ہو سکتی ہے، ثانیاً: وہ اجزاء کا مالک نہیں ہے کہ اس کے ذریعہ سے تالیف و ترتیب اور مرکّب ہوا ہو اسی لیے اس کے لیے کوئی بھی جزء  یا حصہ قابلِ فہم نہیں ہے۔۔ توحید کے یہ معنی امیر المومنین (ع) سے منقول حدیث مبارکہ میں کچھ یوں مذکور ہے:

«يَا أَعْرَابِيُّ إِنَّ الْقَوْلَ فِي أَنَّ اللَّهَ وَاحِدٌ عَلَى أَرْبَعَةِ أَقْسَامٍ فَوَجْهَانِ مِنْهَا لَا يَجُوزُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ وَجْهَانِ يَثْبُتَانِ فِيهِ فَأَمَّا اللَّذَانِ لَا يَجُوزَانِ عَلَيْهِ فَقَوْلُ الْقَائِلِ وَاحِدٌ يَقْصِدُ بِهِ بَابَ‏ الْأَعْدَادِ فَهَذَا مَا لَا يَجُوزُ لِأَنَّ مَا لَا ثَانِيَ لَهُ لَا يَدْخُلُ فِي بَابِ‏ الْأَعْدَادِ أَ مَا تَرَى أَنَّهُ كَفَرَ مَنْ قَالَ إِنَّهُ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ وَ قَوْلُ الْقَائِلِ هُوَ وَاحِدٌ مِنَ النَّاسِ يُرِيدُ بِهِ النَّوْعَ مِنَ الْجِنْسِ فَهَذَا مَا لَا يَجُوزُ لِأَنَّهُ تَشْبِيهٌ وَ جَلَّ رَبُّنَا وَ تَعَالَى عَنْ ذَلِكَ وَ أَمَّا الْوَجْهَانِ اللَّذَانِ يَثْبُتَانِ فِيهِ فَقَوْلُ الْقَائِلِ هُوَ وَاحِدٌ لَيْسَ لَهُ فِي الْأَشْيَاءِ شِبْهٌ كَذَلِكَ رَبُّنَا وَ قَوْلُ الْقَائِلِ إِنَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ أَحَدِيُّ الْمَعْنَى يَعْنِي بِهِ أَنَّهُ لَا يَنْقَسِمُ فِي وُجُودٍ وَ لَا عَقْلٍ وَ لَا وَهْمٍ كَذَلِكَ رَبُّنَا عَزَّ وَ جَلَّ »[3]

حضرت امیر المومنین(ع) سوال کرنے والے کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اے اعرابی ، خداکے واحد ہونے پر چار تقسیم پائي جاتی ہے ۔ ان میں سے دو اس کے  لئے جائز نہیں ہے اور دو سری دو قسم خدا کے لئے ثابت ہے وہ جو دو قسم اس کے لئے جائز نہیں ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی کہے : وہ واحد ہے اور اس سے عددی وحدت کا ارادہ کرے یہ خدا کے لئے جائز نہیں ہے کیونکہ وہ چیزجس کا کوئی  دوسرا نہ ہو ( اور کسی دوسرے کو اس کا بالمقابل فرض  کرنا محال ہو )  وہ عدد کے باب میں داخل نہیں ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا (قرآن ) میں اس کو  جو کہے : خداوند تیسری موجود میں سے  ایک ہے ( یعنی باپ اور بیٹا اور روح القدس ) اسے کافر قرار دیا ہے ؟ دوسرا معنی یہ ہے کہ کوئی  یہ کہے کہ وہ لوگوں میں سے ایک ہے اور اس کی مراد ایک  قسم کی جنس میں سے کوئی ذات ہو[4] تو یہ بھی خدا کے لیے جائز نہیں ہے ، کیونکہ یہ تشبیہ کے معنی کو اپنے اندر سمیٹے  ہوئے ہے ، اور پروردگار اس سے پاک و منزہ ہے۔لیکن  اور دوقسمیں جو خدا کے لئے ثابت ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی یہ کہے  کہ : وہ واحد ہے اور تمام چیزوں  اورمخلوقات میں اس کے جیسا کوئی  نہیں ہے (تو یہ صحیح ہے)ہمارا پروردگار ایسا  ہے۔دوسرے یہ کہ یہ کہے کہ: وہ اَحَدِیُّ المعنی ہے یعنی کوئی بھی  عقلی اور وہمی جزء اس کےلئے قابلِ تصوّر نہیں ہے(تو یہ بھی صحیح ہے)  کیونکہ ہمارا خدا اس طرح کا ہے۔

 توحیدِ ذات  کے بارے میں ایک عمومی نتیجہ کے طور پر یہ کہا جانا چاہیے کہ: توحیدِ ذات، اولاً: اس کا مطلب ہے مثل، شبیہ اور نظیر رکھنے کی نفی اور  ان کے امکان کی نفی؛ اور ثانیاً: اس کا مطلب ہے اس کا کسی جزو رکھنے سے انکار کرنا۔

توحید صفات

جیسا کہ توحیدِ ذات کی بحث میں بیان کیا جاچکا، خدا کوئی شبیہ اور مثل  نہیں رکھتا۔ اس لیے مخلوقات اس کی توصیف  بیان کرنے سے عاجز و قاصر ہیں، اس لیے کہ  مخلوق کی صفات اور توصیفات مخلوق کی دنیا سے لی گئی ہیں، اور چونکہ خدا کسی بھی طرح  مخلوق سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا، اس لیے خدا پر کوئی بھی توصیف لاگو نہیں ہوگی۔ امام باقر ﷣ فرماتے ہیں

« كُلُّ مَا مَيَّزْتُمُوهُ بِأَوْهَامِكُمْ فِي أَدَقِّ مَعَانِيهِ مَخْلُوقٌ مَصْنُوعٌ مِثْلُكُمْ مَرْدُودٌ إِلَيْكُمْ»[5]

جتنا بھی تم اپنی عقلوں اور فکروں کو باریک بینی کے ساتھ اس کے معنی( خداوند کے بارے میں )  کی تشخیص دے لو  وہ  مخلوق ہی رہے گی اور تم جیسی ہی ایک مخلوق ہوگی اور وہ خود تمہاری ہی طرف منسوب ہوگی۔

خدا کی صفات کو صرف اور صرف تنزیہی طریقے سے ہی بیان کی جاسکتا ہےجب کہ اس بھی مقصدخدا توصیف بیان کرنا نہیں بلکہ تعطیل کی نفی اور اس  انکار ہے۔ مثال کے طور پر، خدا کے عَالِم ہونے کے بارے میں ہم خدا کو علم کونہیں جانتے، اور زیادہ واضح طور پر کہا جائے تو خدا کے  علم کی کوئی کیفیت و مقدار نہیں ہے ۔ اس لیے اگر ہم عَالِم  کی صفت کو کسی دوسرے کے لیے بھی استعمال کریں تو اس معاملے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ علم الٰہی کی کوئی کیفیت  اور مقدار نہیں ہے، جب کہ مخلوقات کے علم کی ایک معیّن کیفیت اور ایک محدود مقدارہے۔ یہ الٰہی صفات اور افعال کے معنی کو تنزیہی اعتبار سے بیان  کرنے کے بنیادی نکات میں سے ایک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع ومأخذ
[1] شوری(42)/ 11
[2] توحید ، صدوق / 34 ، باب توحید و۔۔۔ ح 1 ، امیرالمومنین 
[3] توحید ، صدوق / 81 ، باب معنی الواحد والتوحید والموحد ، ح 3 ۔
[4] «ایک » سے مراد یہ ہے کہ اس کا شبیہ ، نظیر اور اس کی ذات جیسا بھی کوئی پایا جاتا ہے۔
[5] بحار الانوار 69/ 293

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 81