اھل حرم کا دربارہ شام میں جانا

Sun, 08/18/2024 - 09:53

اس سلسلہ میں کہ کربلا کے شھیدوں اور اہل حرم کا قافلہ کب واردِ شام ہوا ، معتبر کتابوں نے پہلی صفر یعنی عاشور کے تقریبا ۲۰ دن بعد کا تذکرہ کیا ہے ، زکریا بن محمد بن محمود قزوینى نے «عجائب المخلوقات و غرائب المخلوقات» اور ابوریحان بیرونى نے «الآثار الباقیۃ عن القرون الخالیۃ» میں اس بات کو تحریر کیا :«شهرُ صفر، فى الیوم الاوّل اَدْخَلَ رأس الحسین مدینه دمشق فوضعه یزید لعنه‌الله بین یدیه» ۔ [۱] ماہ صفر کی پہلی کو [امام] حسین علیہ السلام کا سر وارد دمشق ہوا اور یزید ملعون نے اسے اپنے روبرو رکھا ۔

ابوریحان بیرونی مزید تحریر کرتے ہیں : امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد اہل حرم اسیر کرکے شام کی جانب لے جائے گئے ، اس قافلہ کے ساتھ ، سروں کے محافظ ، اخلاقیات سے کوسوں دور اور سخت مزاج فوجی اور شمر بن ذى‌ الجوشن، خولى اور سنان جیسے لشکر پسر سعد کے کمانڈرز تھے تاکہ معرکہ عاشورا اور انصار امام حسین علیہ السلام کے قتل عام کی داستان یزید ملعون کو سنا سکیں ۔

زکریا بن محمد بن محمود قزوینى بھی تحریر کرتے ہیں : «الیوم الاوّل منهُ، عید بنى‌امیه اَدْخَلَتْ فیه رأس الحسین بدمشق و العشرون منهُ ردّت رأس الحسین الى جسته» ۔ [۲] پہلی صفر بنی امیہ کی عید اور خوشی کا دن ہے کیوں کہ اس دن امام حسین علیہ السلام کے سرکو دمشق لایا گیا اور صفر کی ۲۰ کو اپ کے سر کو اپ کے بدن کے ساتھ دفن کردیا گیا ۔

مصباح کفعمى میں ایا ہے : «امام حسین علیہ السلام کا سر پہلی صفر کو وارد دمشق ہوا اور بنی امیہ نے اس عید منائی»[۳] امام حسین علیہ السلام کے سر کے ساتھ اسیروں کو دروازہ «باب‌الساعات» دمشق میں داخل کیا گیا ، باب ‌الساعات پرتین گھنٹے کھڑا رکھا گیا تاکہ یزید کا دربارہ سجایا جاسکے اور گلی کوچہ میں لوگ اکٹھے ہوجائیں ۔[۴]

مورخین تحریر کرتے ہیں کہ یزید ملعون امام حسین علیہ السلام کے دندان مبارک پر چھڑی سے مار رہا تھا اور عبدالله بن زبعری[۵] کے ان کو اشعار کو پڑھ رہا تھا ۔[۶]

لَیْتَ اَشْیاخی بِبَدْرٍ شَهِدُوا                 جَزَعَ الْخَزْرَجُ مِنْ وَقْعِ الْاَسَلْ

فَاَهَلِّوُا وَاسْتَهَلُّوا فَرَحاً                      ثمًّ قالوُا یا یَزیدُ وَ لاتَشَلْ

قَدْ قَتَلْنَا الْقَرْمَ مِنْ ساداتِهِمْ                  وَ عَدَّلْناهُ بِبَدْرٍ فَاعْتَدَلْ

لَعِبٌتْ هاشِمُ بِالْمُلْکِ فَلا                     خَبَرٌ جاءَ وَ لا وَحْیٌ تَزَلْ

لَسْتُ مِنْ خُنْدُفٍ اِنْ لَمْ اَنْتَقِمْ                مِنْ بَنی اَحْمَدَ ما کانَ فَعَلْ

امام سجاد علیہ السلام نے جب یہ منظر دیکھا تو یزید کی طرف رخ کر کے فرمایا : اگر میرے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے یہ منظر دیکھا ہوتا تو کیا کہتے ؟ ! یہ سن کر یزید کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور دربار میں سب پر لرزہ طاری ہوگیا ۔

یزید نے امام سجاد علیہ السلام کو خطاب کرکے کہا : تمھارے والد نے ہم سے رشتہ توڑ لیا ، میرے حق کا انکار کیا اور حکومت و طاقت کے لئے ہم سے جنگ کی ، خدا نے بھی انہیں اس کی سزا دی ۔ [۷] پھر اس نے اس ایت کی تلاوت کی : «وَمَآ أَصَٰبَکُم مِّن مُّصِیبَهٖ فَبِمَا کَسَبَتۡ أَیۡدِیکُمۡ وَیَعۡفُواْ عَن کَثِیرٖ[۸]

امام سجاد علیہ السلام نے جواب میں اس ایت کی تلاوت فرمائی : «مَآ أَصَابَ مِن مُّصِیبَهٖ فِی ٱلۡأَرۡضِ وَلَا فِیٓ أَنفُسِکُمۡ إِلَّا فِی کِتَٰبٖ مِّن قَبۡلِ أَن نَّبۡرَأَهَآۚ إِنَّ ذَٰلِکَ عَلَى ٱللَّهِ یَسِیرٞ[۹]

امام سجاد علیہ السلام سے جب کسی نے سوال کیا کہ سب سے زیادہ سختی اپ نے کہاں اٹھائی تو فرمایا : الشام، الشام، الشام ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ :

۱: الآثار الباقیه: ص ۴۲۲ ؛ و فهرست کتا‌ب‌های رازی و نا‌مهای کتاب‌های بیرونی، ص ۳۸ و۷۲ ۔

۲: عجائب المخلوقات و غرائب الموجودات ،  ص ۴۵ ۔

۳: مصباح کفعمی: ص ۵۱۰ ؛ و فیض کاشانی ، تقویم المحسنین ، ص ۱۵ ۔

۴: لهوف سیدبن طاووس: ص ۱۷۴ ؛ و ابن اعثم ، الفتوح ، ج ۲، ص ۱۸۳ ۔

۵: ابن زبعری نے اس اشعار کو مسلمانوں سے جنگ احد میں بدلہ لینے کے بعد پڑھا تھا ۔

۶: الفتوح، ج ۵، ص ۱۲۹؛ و مقاتل الطالبین، ص ۱۱۹؛ و شذرات الذهب، ج ۱، ص ۶۹؛ و تذکره الخواص، ص ۲۶۱؛ و لواعج الاشجان، ص ۴۳۳ ۔

۷: تاریخ طبری، ج ۵، ص ۴۶۰ ۔

۸: قران کریم ، سوره شوری، آیت ۳۰ ۔

۹ : قرآن مجید، سوره حدید، آیت ۲۲ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
10 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 22