قرآن و حدیث
فَجَعَلَ اللَّهُ الْایمانَ تَطْهیراً لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ
اللہ نے ایمان كو شرك سے پاك ہونے كا وسیلہ قرار دیا
وَ الصَّلاةَ تَنْزیهاً لَکُمْ عَنِ الْکِبْرِ،
نماز کو تكبر سے دور رہنے کیلئے واجب کیا
وَ الزَّکاةَ تَزْکِیَةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِی الرِّزْقِ،
امام جواد علیہ السلام نے فرمایا:
منِ استَحسَنَ قَبيحا كانَ شَريكا فيهِ (۱)
جو بھی کسی کے برے عمل کو اچھا کہے وہ اس کے برے عمل میں شریک ہے
اس برے عمل میں سے ایک مذاق اڑانا ہے کہ قران کریم نے اس سلسلہ میں فرمایا:
حضرت امام صادق عليہ السلام نے فرمایا:
إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ عَلَى الْمُؤْمِنِ سَبْعَةَ حُقُوقٍ فَأَوْجَبُهَا أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ حَقّاً وَ إِنْ كَانَ عَلَى نَفْسِهِ أَوْ عَلَى وَالِدَيْهِ فَلَا يَمِيلُ لَهُمْ عَنِ الْحَقِّ ۔ (۲)
اگر ہمیں شہادت کی عظمت و اہمیت اور اس کے فلسفے کو قرآن اور حدیث کی نگاہ سے دیکھنا اور سمجھنا ہو تو پھر سب سے پہلے ہمیں زندگی کا مفہوم اور جودو بقا کے مفہوم اور اس کے فلسفے کو سمجھنا ہوگا ۔ دوسرے الفاظ میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ خدا کو انسان کو وجود پسند ہے یا اس کا عدم ؟ کیا خدا کو اس کا (ہونا) پسند ہے یا (نہ ہونا) ؟ اس کی (بقا) پسند ہے یا اس کا (فنا) ہونا پسند ہے ؟ کیا خدا انسان کی نابودی اور ہلاک کے درپے ہے ؟ ان مندرجہ بالا سوالوں کا جواب اگر یہ دیاجائے کہ خدا کو اس کا ( نہ ہونا) نابودی اور فنا پسند ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسے پھر خدا نے کیوں (خلق) کیا ؟ کیوں اسے (وجود) عطاکیا ؟
انکھوں کی حیا اہم ترین حیا ہے قران کریم نے سورہ نورکی ۳۰ ویں ایت شریفہ میں ارشاد فرمایا «قُلْ لِلْمُؤْمِنينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ وَ يَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذلِکَ أَزْکي لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبيرٌ بِما يَصْنَعُونَ ؛ ترجمہ : آپ مومن مَردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپ
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا:
الْقَوْلُ الْحَسَنُ يُثْرِى الْمالَ وَ يُنْمِى الرِّزْقَ وَ يُنْسِئُ فِى الاَجَلِ وَ يُحَبِّبُاِلَى الاَهْلِ وَ يُدْخِلُ الْجَنَّةَ (۱)
رسول اسلام سے روایت کے خداوند متعال نے جناب عیسی ع کو خطاب میں کہا:
«یَا عِیسَی أَنَا رَبُّکَ وَ رَبُّ آبَائِکَ اسْمِی وَاحِدٌ وَ أَنَا الْأَحَدُ الْمُتَفَرِّدُ بِخَلْقِ کُلِّ شَیْءٍ وَ کُلُّ شَیْءٍ مِنْ صُنْعِی» (۱)
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کہ زندگی دروس کا مجموعہ ہے اس حوالے سے فاطمی خواتین کا بھی وظیفہ ہے کہ وہ معاشرہ کو مشکلات، مخمصے اور بے ضابطگیوں سے نجات دینے کیلئے اپنی تمام توانائیوں کو بروئے کار لائیں اور ان دروس سے بخوبی استفادہ کریں، ہم اس مقام پر بعض باتوں کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
صحْبَةُ الْأَشْرَارِ تَكْسِبُ الشَّرَّ كَالرِّيحِ إِذَا مَرَّتْ بِالنَّتْنِ حَمَلَتْ نَتْناً ۔ (۱)
برے لوگوں کی ہمنشینی سے انسان اسی طرح بدی میں ملوث ہوجاتا ہے جس طرح گندی جگہ سے گزرنے والی ہوا بدبودار ہوجاتی ہے۔
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا:
الْقَوْلُ الْحَسَنُ يُثْرِى الْمالَ وَ يُنْمِى الرِّزْقَ وَ يُنْسِئُ فِى الاَْجَلِ وَ يُحَبِّبُاِلَى الاَْهْلِ وَ يُدْخِلُ الْجَنَّةَ (۱)