امام جواد علیہ السلام نے فرمایا:
منِ استَحسَنَ قَبيحا كانَ شَريكا فيهِ (۱)
جو بھی کسی کے برے عمل کو اچھا کہے وہ اس کے برے عمل میں شریک ہے
اس برے عمل میں سے ایک مذاق اڑانا ہے کہ قران کریم نے اس سلسلہ میں فرمایا:
“يا ايهَا الَّذينَ امَنُوا لا يسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسى انْ يكُونُوا خَيرا مِنْهُم وَ لا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ عَسى انْ يكُنَّ خَيرا مِنْهُنَّ وَ لا تَلْمِزُوا انْفُسَكُمْ وَ لا تَنابَزُوا بِالالْقابِ بِئْسَ الاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الايمانِ وَ مَنْ لَمْ يتُبْ فَاولئِكَ هُمُ الظّالِمُونَ. (۲)
اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: کشف الغمه، ص ۱۳۹، ح ۳
۲: حجرات، ایت 11
Add new comment