حضرت فاطمۃ الزھرا (علیہا السلام)
خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے پندرہواں مضمون تحریر کیا جارہا ہے۔ کسی چیز کی ابدیّت انسان کے ادراک سے بعید ہے، لہذا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ابدیّت بھی انسان کے ادراک سے بعید ہے۔
خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے چودہواں مضمون تحریر کیا جارہا ہے، لفظ امد کے دو معنی ہیں، ان میں سے یہاں پر مقصود جو بھی ہو، دونوں معنی کے مطابق انسان، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بدلہ نہیں دے سکتا۔
خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے، یہ تیرہواں مضمون ہے، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے اس فقرہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تعداد شمار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ نعمتوں کی تعداد گننے سے زیادہ ہے۔
خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ بارہواں مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ شروع کرتے ہوئے اللہ کی حمد و ثناء کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوات بھیجی، یہ سن کر لوگ دوبارہ رونے لگ گئے، جب انہوں نے خاموشی اختیار کی تو آپؑ نے دوبارہ اپنا خطبہ آغاز کیا۔
بی بی(س) نے محض ایک ناز و نعم سے بھرپور زندگی نہیں گزاری بلکہ امورِ خانہ داری کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کی مثالی رفیقِ حیات ثابت ہوئیں،آپ نے ایک مثالی بیوی ہونے کے ناطے مثالی بچوں کو پروان چڑھایا اور اپنے شوہر کی اجتماعی و انفرادی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں بھرپور تعاون کیا۔
خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے انیسواں مضمون تحریر کیا جارہا ہے، اس مضمون میں دو سوالوں کا جواب دیا جارہا ہے جن کا تعلق زیرِبحث فقرے سے ہے۔
پیغمبر[ص] نے قبول کرلیا کہ حضرت علی اپنی زرہ کو بیچ دیں اور اس کی قیمت سے فاطمہ 236 کی مہر کے عنوان سے پیغمبر کوکچھ ادا کریں. زرہ چار سودرہم میں فروخت ہوئی .پیغمبر نے اس میں کچھ درہم بلال کو دیا تاکہ زہرا ؑ کے لئے عطر خریدیں اور اس میں سے کچھ درہم عمار یاسر اور اپنے کچھ دوستوں کودیا تاکہ علی و فاطمہ کے گھر کے لئے کچھ ضروری سامان خریدیں.
پیغمبر اسلام(ص) کی بیٹی کا مہر پانچ سودرہم تھا اور ہر درہم ایک مثقال چاندی کے برابر تھا (ہر مثقال ۱۸؍ چنے کے برابر ہوتاہے)۔
فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت وہ جوہر حیات ہے جس نے پیغمبر اسلام [ص] سے اپنے لئے ام ابیہا کا لقب حاصل کیا اور این فضیلت بزور بازو نیست۔۔۔۔
ایک انسان کی وصیت اسکی زندگی کے اس تجربہ کا بھپور نچوڑ ہوتی ہے جو اس نے اپنی زندگی میں اپنے آس پاس محسوس کیا اور اسے جینے کی کوشش کی ہے اسی لئے بزرگان ملت کی وصیتیں مشعل راہ و زاد حیات ہوتی ہیں، جبکہ یہ وصیت اس جوہر انسانیت کی ہے جسکی مختصر مگر پر برکت زندگی جہاد مسلسل رہی۔