لوگوں کو اچھائی کی تعلیم دینے اور انھیں برائیوں سے روکنے کے بہت سے طریقے ہیں لیکن ان طریقوں میں جو سب سے زیادہ کارآمد، زیادہ با اثر اور جلدی مقصد تک پہونچانے والا ہے وہ عملی طریقہ ہے۔
زبان سے اچھائی کی تعلیم دینا اور برائی سے روکنا ممکن ہے، لیکن بسا اوقات یہ طریقہ بے اثر تو نہیں مگر کم اثر ثابت ہوتا ہے، لیکن عملی تعلیم دینا خود اچھائی کو اپنا کر اور برائی سے بچ کر دوسرا کو اچھائیاں اپنانے اور برائیوں سے رکنے کی دعوت دینے میں نہایت مؤثر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ معصومین علیہم السلام نے پہلے خود اچھائیوں پرعمل کیا اوربرائیوں سے پرھیز کیا اس کے بعد چاہنے والوں اور ماننے والوں کو امر ونہی فرمایا ہے۔
اسی اسوہ حسنہ اور نمونہ عمل کا ایک چہرہ امام علی رضا علیہ السلام کی ذات گرامی ہے ، ہم یہاں پر آپ کی حیات مبارکہ کا کچھ واقعات جو عملی تعلیم وتربیت کے واضح نمونے ہیں پیش کررہے ہیں۔ امید ہے کہ ان واقعات سے حاصل ہونے والے اسباق ہماری زندگی کو سنوارنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
فضول خرچی سے منع ہے
ایک دن امام علی رضا علیہ السلام کے غلام پھل کھا رہے تھے انہوں نے پورا پھل کھانے سے پہلے ہی اسے پھینک دیا۔ امام علیہ السلام نے اُن سے فرمایا: ’’سبحان اللہ ! اگر تُمھیں ضرورت نہیں ہے، تو ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں اِس کی ضرورت ہے؛ اِن پھلوں کو ضرورت مندوں کو دے دو‘‘۔
مہمان سے کام لینا نازیبا عمل
ایک دن امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں مہمان شرفیاب ہوا، حضرت اُس کے پاس تشریف فرما رہے اور اُس سے باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ رات کا ایک حصّہ گزر گیا، اِسی دوران چراغ میں ذرا خرابی پیدا ہوگئی، مہمان نے جب چراغ کو خراب ہوتے دیکھا تو امام کے احترام میں اُسے درست کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر حضرت (ع) نے اُسے روک دیا اورخود ٹھیک کیا، پھر فرمایا: ’’ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے مہمانوں سے کام نہیں لیتے ہیں ‘‘ اس کا مطلب ہے کہ آل محمد علیھم السلام کے گھرانے میں مہمانوں سے کام لینا نازیبا عمل مانا جاتا ہے ۔
سجدہ شکر کی اہمیت
سجدہ انسان کو معراج بخشتا ہے اور انسان کے لئے خداوند کریم سے تقرب کا وسیلہ بنتا ہے ۔
امام محمد باقر(ص) معتبر سند کیساتھ ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے والد بزرگوار امام زین العابدین (ع) جب بھی خدا کی کسی نعمت کو یاد کرتے تو اس کے شکرانے میں سجدہ شکر بجالاتے ، جو بھی آیہ سجدہ تلاوت فرماتے تو سجدہ بجالاتے ، کسی شر سے خوف کھاتے اور خدا اسے دور کر دیتا تو بھی سجدہ شکر ادا فرماتے ، جب بھی واجب نماز سے فارغ ہوتے تو سجدہ بجالاتے اور جب دو آدمیوں میں صلح کر واتے تو اس کے لیے بھی سجدہ شکر ادا کرتے ۔ آن جناب (ع) کے تمام اعضائے سجدہ پر سجدے کے نشان موجود تھے ، اسی لیے آپ (ع) کو ’’سجاد‘‘کہا جاتا ہے ۔
Add new comment