اللهمّ افْتَحْ لی فیهِ أبوابَ فَضْلَکَ وأنـْزِل علیّ فیهِ بَرَکاتِکَ وَوَفّقْنی فیهِ لِموجِباتِ مَرْضاتِکَ واسْکِنّی فیهِ بُحْبوحاتِ جَنّاتِکَ یا مُجیبَ دَعْوَةِ المُضْطَرّین ۔
اے معبود! میرے لئے اس مہینے میں اپنے فضل کے دروازے کھول دے، اور اس میں اپنی برکتیں مجھ پر نازل کردے، اور اس میں اپنی خوشنودی کے اسباب فراہم کرنے کی توفیق عطا کر، اور اس کے دوران مجھے اپنے بہشت کے درمیان بسا دے، اے بے بسوں کی دعا قبول کرنے والے ۔
مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے اس دعا میں خداوند متعال چار چیزوں کی درخواست کی ہے جو انسانوں کو بہشتی اور جنتی بنا دے گی ۔
۱: اللهمّ افْتَحْ لی فیهِ أبوابَ فَضْلَکَ ۔ اے معبود! میرے لئے اس مہینے میں اپنے فضل کے دروازے کھول دے ۔
۲: وأنـْزِل علیّ فیهِ بَرَکاتِکَ ۔ اے معبود! اس میں اپنی برکتیں مجھ پر نازل کردے ۔
۳: وَوَفّقْنی فیهِ لِموجِباتِ مَرْضاتِکَ ۔ اے معبود اس میں اپنی خوشنودی کے اسباب فراہم کرنے کی توفیق عطا کر۔
۴: واسْکِنّی فیهِ بُحْبوحاتِ جَنّاتِکَ ۔ اے معبود! اس کے دوران مجھے اپنے بہشت کے درمیان بسا دے ۔
قران کریم ارشاد ہے : ’’ تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِى نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن كَانَ تَقِيّاً ؛ یہی وہ جنّت ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں متقی افراد کو قرار دیتے ہیں ‘‘ ۔ (۱) یقینا ہم جس طرح خداوند متعال سے اس بات کی درخواست کررہے ہیں کہ وہ ہمیں جنت میں قرار دے ہمیں خود بھی اس کا زمینہ فراھم کرنا چاہئے یعنی اس دنیا میں تقوائے الھی اپنانا چاہئے اور اعمال خیر انجام دینا چاہئے تاکہ خداوند متعال ہم پر اپنی عنایتوں کو جاری و ساری کرے ۔
اس مقام پر امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک نکتہ کی جانب اشارہ کر رہا ہوں کہ حضرت نے فرمایا : ثَلاَثٌ مَنْ أَتَى اَللَّهَ بِوَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ أَوْجَبَ اَللَّهُ لَهُ اَلْجَنَّةَ اَلْإِنْفَاقُ مِنْ إِقْتَارٍ وَ اَلْبِشْرُ لِجَمِيعِ اَلْعَالَمِ وَ اَلْإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِهِ ؛ تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز بھی اگر انسان حاصل کرلے اور اس پر عمل کرے تو جنت میں جانے کا مستحق اور لائق ہوگا ۔ (۲)
۱: اَلْإِنْفَاقُ مِنْ إِقْتَارٍ ؛ انفاق اور تنگدستوں کی مدد کرنا ، کچھ لوگوں کا تصور یہ ہے کہ فقط مالدار اور ثروت مند لوگ ہی انفاق و مدد کرسکتے ہیں ، جبکہ قران کریم کا ارشاد ہے : ’’ الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِى السَّرَّاء وَالضَّرَّاء ؛ جو راحت اور سختی ہر حال میں انفاق کرتے ہیں ‘‘ (۳) یعنی اسانیوں اور سختیوں دونوں حالتوں میں انفاق کرتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ فقراء بھی اپنی طاقت کے بقدر انفاق کریں اور خود کو انفاق دور نہ رکھیں ، جو لوگ تنگدستی میں انفاق کرتے ہیں ، ہر حال میں خوش رہتے ہیں : وَ اَلْبِشْرُ لِجَمِيعِ اَلْعَالَمِ ؛ پوری دنیا کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملتے ہیں اور منھ ٹیڑھا نہیں کرتے وہ لوگ بہشتی ہیں ، بعض لوگ ایسے ہیں کہ انہیں دیکھ کر انسانوں کو نماز وحشت یاد اجائے، انسان اپنی باتیں بھول جائے ۔
۳: وَاَلْإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِهِ ؛ لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا ، خود کو لوگوں کو سے الگ نہ دیکھنا ، جو کچھ بھی خود کے لئے پسند ہے اسے دوسروں کے لئے پسند کرنا ۔
پروردگار عالم سے یہ دعا ہے کہ ہمیں ان باتوں کے حاصل کرنے اور ان پر عمل کرنے کی ہمیں توفیق نصیب فرمائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ مریم ، ایت ۶۳ ۔
۲: شیخ کلینی ، اصول کافی ، ج۲، ص۱۰۳ ۔
۳: قران کریم ، سورہ آل عمران ، ایت ۱۳۴ ۔
Add new comment