ماہ رمضان کی دعاوں کی شرح، چھبیسویں دن کی دعا
اللهمّ اجْعَل سَعْیی فیهِ مَشْکوراً وذَنْبی فیهِ مَغْفوراً وعَملی فیهِ مَقْبولاً وعَیْبی فیهِ مَسْتوراً یا أسْمَعِ السّامعین.
اے معبود! اس مہینے میں میری کوششوں کو لائق قدردانی قرار دے، میرے گناہوں کو اس میں قابل بخشش قرار دے، اور میرے عمل کو اس میں مقبول اور میرے عیبوں کو پوشیدہ قرار دے، اے سننے والوں کے سب سے زیادہ سننے والے ۔
مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ، ماہ مبارک رمضان کے چھبیسویں دن کی دعا میں خداوند متعال سے چار چیزوں کی درخواست فرمارہے ہیں، اپ بارگاہ احدیت میں عرض کرتے ہیں:
۱: اللهمّ اجْعَل سَعْیی فیهِ مَشْکوراً ؛ اے معبود! اس مہینے میں میری کوششوں کو لائق قدردانی قرار دے ۔
۲: وذَنْبی فیهِ مَغْفوراً ؛ میرے گناہوں کو اس میں قابل بخشش قرار دے ۔
۳: وعَملی فیهِ مَقْبولاً ؛ اور میرے عمل کو اس میں مقبول قرار دے ۔
۴: وعَیْبی فیهِ مَسْتوراً ؛ اور میرے عیبوں کو پوشیدہ قرار دے ۔
یا أسْمَعِ السّامعین ؛ اے سننے والوں کے سب سے زیادہ سننے والے ۔
انحضرت سب سے پہلی وہ چیز جس کی خداوند متعال سے درخواست کررہے ہیں وہ یہ کہ ہمارا عمل خدا کی بارگاہ میں مقبول واقع ہو ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر تین چیزیں کسی انسان کے اندر نہ ہو تو اس کے اعمال قبول نہ ہوں گے ، یہ تین چیزیں خداوند متعال کی بارگاہ میں اعمال کی مقبولیت کی چابھی ہے ۔
اپ نے فرمایا: ثَلاَثٌ مَنْ لَمْ يَكُنَّ فِيهِ لَمْ يَتِمَّ لَهُ عَمَلٌ ؛ اگر یہ تین چیزیں کیسی میں نہ ہوں تو اس کا عمل مقبول نہ ہوگا :
۱: وَرَعٌ يَحْجُزُهُ عَنْ مَعَاصِي اَللَّهِ ؛ پاکدامنی اور تقوا جو اسے خدا کی نافرمانی سے دور رکھ سکے ۔
۲: وَ خُلُقٌ يُدَارِي بِهِ اَلنَّاسَ ؛ اچھا اخلاق جس کے ذریعہ لوگوں کیساتھ مدارا کیا جاسکے ۔
۳: وَ حِلْمٌ يَرُدُّ بِهِ جَهْلَ اَلْجَاهِلِ ؛ صبر و حلم جس کے وسیلہ نادانوں کو جاہلانہ برتاؤ کو دور کیا جاسکے ۔ (۱) ۴۸۲۹
مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس سنہری حدیث کے تحت اگر کوئی تقوائے الھی کی رعایت نہ کرے تو اس کے اعمال قبول نہ ہوں گے ، بعض افراد نمازیں پڑھتے ہیں مگر ان کے اندر تقوا نہیں ہے ، غیبت کرتے ہیں ، تہمت لگاتے ہیں ، جن انکھوں سے خانہ خدا میں انسو بہاتے ہیں انہیں انکھوں سے گناہ انجام دیتے ہیں اسی وجہ سے ان کے اعمال محفوظ نہیں رہتے اور مقبول بارگاہ نہیں ہوتے ۔
دوسری جانب بداخلاق انسان کا عمل بھی اس کے نامہ اعمال میں محفوظ نہیں رہتا کیوں کہ ایک طرف و شب زندہ داری کرتا لیکن بداخلاق شب زندہ دار ہے ، دن کی ابتداء ہی میں اپنے گھرانے ، اپنے مخاطبین اور اپنے اس پاس والوں کے ساتھ بداخلاقی کرکے اپنے اعمال کو ضائع کردیتا ہے ۔
نیز چونکہ انسان سماجی موجود ہے اور سماج میں زندگی بسر کرتا ہے ممکن ہے کچھ ایسے افراد سے سامنا ہوں جو ہمارے ساتھ اچھی طرح پیش نہ آئیں ، اچھی طرح بات نہ کریں ، ہمارے حقوق کو ٹھیک سے ادا نہ کریں ان مقامات پر لازم ہے کہ ہمارے اندر صبر اور تحمل موجود ہو ، جس کے اندر یہ تین صفات ہوں گے اس حدیث کی روشنی میں اس کے اعمال قبول ہوں گے ۔
آخر میں پرورگار عالم سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اعمال ، ہماری نمازیں ، روزے ، حج و زکات اور دعا کو قبول فرمائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: کلینی ، اصول کافی ، ج۲، ص۱۱۶ ۔
Add new comment