خداوند متعال نے شیطان کو انسانوں کی آزمائش، امتحان اور اس کی منزلت، درجات و گریڈ کے تعین کیلئے پیدا کیا ہے، بلا شک و شبھہ اس امتحان کے بغیر کسی کی منزلت و مقام معین نہیں ہوسکتا، امتحان اور آزمائش کے نتیجہ میں ہی افراد مختلف درجات حاصل کرپاتے ہیں ۔
شیطان، سعادت انسان کے راستہ میں بزرگترین رکاوٹ ہے کہ جو مختلف حیلے اور حربے کے ذریعہ انسانوں کو گمراہ کرنے کی تلاش میں مصروف رہتا ہے، شیطانی چالوں سے آشنائی اور اس کے مقابلے کے طریقہ سے آگاہی، اس قسم خوردہ دشمن کی چالوں کو ناکارہ بنانے میں بہت زیادہ موثر ہے۔
شیطان شناسی (شیطان کی شناخت) گذشتہ زمانے ہی سے مذھبی و دینی مطالب و مفاھیم میں دلچسپی رکھنے والوں کے مورد توجہ رہی ہے، شیطانی چالوں اور حربوں سے آشنائی اور اس سے مقابلے کے طور و طریقے سے آگاہی، انسان کا درخشاں مستقبل بننے میں اہم رول و کردار ادا کرسکتا ہے، شیاطین اور اس کے چیلے اپنی پوری طاقت کے ساتھ انسان کی سعات و کامیابی کے راستہ میں رکاوٹ و دیوار بنکر کھڑے ہیں تاکہ کوئی بھی انسان ، خدا کی سمت و جانب نہ جاسکے اور اپنی خام خیالی میں خدا کی صفوں کو اس کے بندوں سے خالی کردے ، البتہ اس بیچ شیطان کی آواز پر کہنے والے اور اس کے پیچھے دوڑنے والے افراد بھی کم نہیں ہیں۔
انسانوں کے گمراہ کرنے اور بہکانے کے شیطانی راستہ و حربے متعدد ہیں کہ ہم یہاں پر ان میں سے بعض کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔
یک: وسوسہ
وسوسہ، انسانوں کو گمراہ کا کرنے کا معمولی اور عام طریقہ ہے، کبھی یہی وسوسہ ۹۹ پرسنٹ صحیح کام انجام دینے بعد پیدا ہوتا ہے تا کہ وسوسہ اخری مرحلہ میں اثر انداز اور کارگر ہوسکے۔
سورہ اعراف کی ۲۰ ویں ایت کریمہ میں قران کریم کا اس سلسلہ میں ارشاد ہے کہ " فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ۔ ترجمہ: پھر شیطان نے دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ان (کی نظروں) سے پوشیدہ تھیں ان پر ظاہر کر دے اور کہنے لگا: (اے آدم و حوا!) تمہارے رب نے تمہیں اس درخت (کا پھل کھانے) سے نہیں روکا مگر (صرف اس لئے کہ اسے کھانے سے) تم دونوں فرشتے بن جاؤ گے (یعنی علائقِ بشری سے پاک ہو جاؤگے) یا تم دونوں (اس میں) ہمیشہ رہنے والے بن جاؤ گے۔[1] شیطان حضرت ادم و حوا علیھما السلام کے دل میں وسوسہ پیدا کرنے کی کوشش کی اور ان کے لئے مختلف قسم کی چالیں بچھادیں۔
دوسرے: غافل کرنا
اگر شیطان کسی پر غفلت طاری کرنے اور اسےغافل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو پھر دوسری چالوں کے استعمال اور دوسرے راستے کے اپنانے کی خود کو زحمت نہیں دیتا، لہذا اگر کوئی اس کی غفلت کا شکار ہوجائے تو اس کی گمراہی بہت قریب ہوجاتی ہے، اسی بنیاد پر قران کریم نے سورہ حجر کی ۳۹ ویں ایت کریمہ میں ارشاد فرمایا کہ «رَبِّ بِمَآ أَغْوَیْتَنِی لأُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الأَرْضِ وَلأُغْوِیَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ ، ترجمہ: ابلیس نے کہا: اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقیناً ان کے لئے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوش نما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔[2]
غفلت کا سرانجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا ، ہم اگر دنیاوی مسائل میں بھی توجہ کریں تو غافل انسان ہر صاحب عقل و شعور کے نزدیک محکوم ہے کیوں وہ اپنے غفلت آمیز انداز سے نہ فقط یہ کہ خود کو نقصان پہونچا سکتا ہے بلکہ اپنے اطراف میں موجود لوگوں کو بھی سنگین مشکلات سے روبرو کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1] اعراف/ 20
[2] حجر / 39
Add new comment