خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے چودہواں مضمون تحریر کیا جارہا ہے، لفظ امد کے دو معنی ہیں، ان میں سے یہاں پر مقصود جو بھی ہو، دونوں معنی کے مطابق انسان، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بدلہ نہیں دے سکتا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میں فرمایا: " وَ نَأَى عَنِ الْجَزَاءِ أَمَدُهَا"، "اور نعمتوں کی ابتدا، بدلہ (دینے) سے دور ہے"۔ [احتجاج، طبرسی، ج1، ص131، 132]
نعمتوں کی ابتدا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اس سے دور ہے کہ ہم ان کی جزا اور بدلہ دے سکیں، کیونکہ اگر انسان اس شخص کو بدلہ دینا چاہے جس نے اس پر احسان کیا ہے تو پہلے اسے اس احسان کی مقدار کی ناپ تول کرنا پڑے گی، پھر اسی کے برابر اس کا بدلہ دے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ابتدا کی پہچان انسان کی رسائی سے دور ہے، لہذا انسان اس کی مقدار کو دیکھنے اور ناپ تول کرنے سے عاجز ہے تو اس کا بدلہ بھی اللہ تعالیٰ کو ادا نہیں کرسکتا۔
لفظ "اَمَد" ساری مدت کو بھی کہا جاتا ہے اور ابتدا کو بھی کہا جاتا ہے۔ بنابریں یہاں پر مراد یا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ابتدا یا اس کے نعمت دینے کی ابتدا انسان کی رسائی سے دور ہے یا مراد یہ ہے کہ نعمت دینے کی پوری مدت، انسان کی رسائی سے دور ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کی کیفیت ایسی ہے کہ لوگوں کے احسان سے جو وہ ایک دوسرے پر کرتے ہیں، اس سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ مثلاً اگر کسی آدمی نے اپنے دوست کو کھانا کھلایا تو یہ مہمان کسی دن اس میزبان کے لطف و کرم کا بدلہ دینے کے لئے اسے کھانا کھلا دے گا، کیونکہ اس کے لطف و احسان کی مقدار واضح ہے، لیکن اگر کوئی انسان، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بدلہ دینا چاہے تو کیسےدے سکتا ہے جبکہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ہے، اور اگر اتنی بے شمار نعمتوں میں سے کسی چیز کو بدلہ کے طور پر دینا بھی چاہے تو اسے کہاں سے لائے گا؟ انہی بے شمار نعمتوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[احتجاج، طبرسی]
[شرح خطبه حضرت زهرا (سلام الله علیها)، آیت اللہ آقا مجتبی تہرانی]
[شرح خطبہ فدکیہ، آیت اللہ مصباح یزدی]
Add new comment