تشدد انسانی کرامت خلاف بدترین عمل ہے کہ جو انسان کی شان و شوکت اور عظمت و شخصیت کو معاشرہ میں مٹا دیتی ہے نیز اس کی مختلف میدانوں میں سرگرمیوں کو بھی روک دیتی ہے ، یہ نفرت انگیز عمل تمام عالمی اقدامات کے باوجود اج بھی معاشرہ میں جاری و ساری ہے ۔
اگر چہ تشدد ایک مدت تک قانونی سمجھا جاتا رہا ہے اور عدالتی نظام میں اعتراف جرم کا وسیلہ شمار کیا جاتا رہا ہے مگر وقت گزرنے اور معاشرہ کی ترقی یافتہ ہونے کے بعد اس عمل نے نہ فقط اپنی مشروعیت اور قانونی حیثت کھودی ہے بلکہ ایک نا پسندہ اور منفور عمل کی صورت اختیار کرگیا ، تہذیبی میدان میں انسانی معاشرے کی ترقی نے انسانی کرامتوں اور ان کی شان و منزلت کو اجاگر کیا اور تشدد کو بدترین عمل بتایا ۔
ٹیکنالوجی کی ترقی اور پلیس کے ٹیکنیکل وسائل نے تشدد کی بنیادوں کو متزلزل کردیا اور عدالتی نظام میں جرائم کے حقائق اور تہہ سمجھنے اور اعتراف جرم کے لئے تشدد کی ضرورتوں کو ختم کردیا ہے اسی بنیاد پر حکومتوں اور عالمی معاشرہ نے تشدد پر پابندیاں عائد کردی اور اسے انسانی اقدار کے خلاف عمل جانا ۔
یہی وہ بنیاد تھی کہ 10 دسمبر 1984 عیسوی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تشدد اور ظالمانہ غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک یا سزا کے خلاف ایک قرارداد منظوری کی گئی اور 26 جون 1987 عیسوی کو اس قرار داد کو نافذ العمل کردیا گیا۔
البتہ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ پوری دنیا سے یہ منفور عمل ختم ہوگیا ہو بلکہ اج بھی دنیا کے مخلتف گوشہ میں موجود مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ خود کو ترقی یافتہ ، مھذب اور بڑی طاقت کہنے والے ممالک اج بھی قدیم راستہ پر گامزن ہیں اور تشدد ان کا پہلا راستہ ہوتا ہے ۔
عراق میں ابوغریب کے حوالے سے نشر ہونے والی خبریں اور اس جیل میں مرد و زن ، چھوٹے ، بڑے اور سن رسیدہ افراد کے ساتھ انجام پانے والے تشدد کے واقعات بیان کرنے کے لائق نہیں ہیں ۔
امریکا جہاں دنیا کو اخلاقیات کا ظاھری درس دیتا ہے خود گوانٹانامو میں ھزاروں بے گناہوں کو ںظر بند کر رکھا ہے ۔
Add new comment