تاریخ
تاریخ گواہ ہے کہ الہی نمایندوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ چلنے والی تلوار جہالت ونادانی کی تلوار ہے جس کا مقابلے سارے اولیاء خدا نے کیا اور 61 ہجری میں کربلا کا جھاد بھی اسی تاریخی نادانی وجہالت کے خلاف تھا۔
سید الشھداء امام حسین علیہ السلام کے کربلا وارد ہونے سے لیکر نو محرم تک بہت اہم واقعات پیش آئے جن کا تزکرہ عموما ہماری مجالس میں نہیں ہوتا۔ جن میں ابن زیاد کے مختلف خطوط، مختلف ملاقاتیں، پانی کے حصول کے لے مختلف کوشش، اور غازی با وفا کے وفا کا امتحان لیتے ہوئے امن نامہ وغیرہ جیسے واقعات شامل ہیں۔
واقعہ کربلا ہمیں اس چیز کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ ظلم اور ظالم کے سامنے کبھی بھی نہیں جھکنا چاہیے۔
خلاصہ: کیونکہ یزید کھلم کھلا اسلام کو برباد کررہا تھا، لیکن اس کے باپ معاویہ کے خلاف اس لیے قیام نہ کیا کہ وہ بھی اگرچہ اسلام کو مکمل طور پر نابود کرنے کی انتہائی کوشش میں مسلسل مصروف رہا مگر اس نے منافقت کی بنیاد پر ظاہر کا خیال رکھا اور اپنی حقیقت کو چھپائے رہا۔ اگر امام (علیہ السلام) قیام کرتے تو لوگوں کو اس کی تخریب کاریاں سمجھ نہ آتیں، لہذا امام (علیہ السلام کا قیام اور محنت سب ضائع ہوجاتا۔
اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کرنا واجب ہے جیسا کہ واقعہ کربلا نے واضح کر دیا کہ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں کہ جنہیں اپنے زمانے کے امام کی معرفت ہے، اگر واقعہ کربلا رونما نہ ہوتا تو حق و باطل پر لوگوں کی پہچان بہت مشکل ہو جاتی۔
رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے آل سعود کو عصر حاضر کا شجرہ ملعونہ قرار دیا ۔اور اسکی دلیل قرآن مجید کی آیات کریمہ سے لائی ۔اور منا کے شھداء کے قاتل آل سعود کے خلاف عالمی سطح پر انٹرنیشنل تحریک چلانے کی تاکید کی ۔
خلاصہ: دین کی حفاظت امام کی ذمہ داری ہے، جب دین کے دشمن دین پر یلغار کرتے ہوئے دین کی بنیادیں کاٹنا چاہیں تو امام کو ایسی حکمت عملی اپنانی چاہیے جس سے اسلام بھی محفوظ رہے اور مسلمانوں کی جانیں بھی، مگر کبھی حالات ایسے نازک مرحلہ پر پہنچ آئے جب صلح کرکے اسلام اور مسلمانوں کی جانوں کو محفوظ رکھا اور کبھی حالات یوں بدل گئے کہ جنگ کرکے اسلام کو بچانا پڑا، ایسی صورتحال میں جان کو دین پر قربان کردینا، اللہ کی رضامندی کے عین مطابق ہے، البتہ معصوم امام کی زیرنگرانی۔
خلاصہ: امام حسن (علیہ السلام) نے جو معاویہ سے مجبوراً اور بحکم الہی صلح کی تھی، امام حسین (علیہ السلام) بھی اپنے امام وقت کے عہد کے پابند رہے، اور صلح نامہ پر عمل کرنا قیام کرنے میں رکاوٹ تھا۔
خلاصہ: امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے بھائی حضرت امام حسن (علیہ السلام) کی طرح معاویہ کے زمانہ میں قیام نہیں کیا، کیونکہ معاویہ نے مکاریوں اور عوامفریبیوں سے معاشرہ کو اتنا بدحال بنا دیا تھا کہ قیام بے اثر ہوجاتا، ان مکاریوں میں سے ایک، ظالم اور خونخوار کارندوں کو حکومتی منصب سونپ دینا ہے، جنہوں نے معاویہ کے حکم سے مختلف تخریب کاریاں کیں۔
خلاصہ : امت رسول نے نواسہ رسول کو مدینہ میں نہ رہنے دیا، حاکم وقت نے کہا کہ یا تو یزید کی بیعت کریں یا پھر وطن چھوڑیں۔