صلح نامہ پر عمل کرنا، امام حسین (علیہ السلام) کے قیام میں رکاوٹ

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: امام حسن (علیہ السلام) نے جو معاویہ سے مجبوراً اور بحکم الہی صلح کی تھی، امام حسین (علیہ السلام) بھی اپنے امام وقت کے عہد کے پابند رہے، اور صلح نامہ پر عمل کرنا قیام کرنے میں رکاوٹ تھا۔

صلح نامہ پر عمل کرنا، امام حسین (علیہ السلام) کے قیام میں رکاوٹ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جیسا کہ سابقہ مضامین میں یہ بحث جاری ہے کہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے معاویہ کے دور میں قیام کیوں نہیں کیا، اس کی چار وجوہات اب تک بتائی جاچکیں، اب ہمیں پانچویں وجہ کی تشریح بیان کرنا ہے۔
معاویہ کے زمانہ میں امام حسین (علیہ السلام) کے قیام نہ کرنے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ آپؑ کے برادر بزرگوار حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) نے جنگ نہ کرنے کا جو عہد معاویہ سے کیا ہوا تھا، وہ باعث تھا کہ امام حسین (علیہ السلام) جنگ نہ کریں۔ امام حسن (علیہ السلام) کی صلح، معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے انتہائی جدوجہد اور لوگوں کو بیدار کرنے کے بعد وقوع پذیر ہوئی، جب لوگوں نے آپؑ کا ساتھ نہ دیا تو آپؑ کو مجبوراً صلح کرنا پڑی۔
حضرت سیدالشہدا (علیہ السلام) جو انسانی اور الہی بلند اقدار کا نمونہ ہیں، اس بات پر متوجہ تھے کہ "عہد پر وفا کرنے" کے اصول کی عظمت کیا ہے، اور یہ ضابطہ ہر طرح کی جانثاری کے لائق ہے، آپؑ کی شخصیت، حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی شخصیت کے سلسلہ کی کڑی ہے کہ ایمان، عمل اور عہد کو پورا کرنے کا ضابطہ آنحضرتؑ کے روحانی صفات میں سے تھا، جیسا کہ آنحضرتؑ نے مالک اشتر کو یہ حکم دیا تھا: "اور اگر اپنے اور دشمن کے درمیان کوئی معاہدہ کرو، یا اُسے اپنے دامن میں پناہ دو تو پھر عہد کی پابندی کرو، وعدہ کا لحاظ رکھو اور اپنے قول و قرار کی حفاظت کے لئے اپنی جان کو سپر بنادو، کیونکہ اللہ کے فرائض میں سے ایفائے عہد کی ایسی کوئی چیز نہیں کہ جس کی اہمیت پر دنیا اپنے الگ الگ نظریوں اور مختلف خیالات کے باوجود یکجہتی سے متفق ہو، اور مسلمانوں کے علاوہ مشرکوں تک نے اپنے درمیان معاہدوں کی پابندی کی ہے۔ اس لیے کہ عہد شکنی کے نتیجہ میں انہوں نے تباہیوں کا اندازہ کیا تھا لہذا اپنے عہد و پیمان میں غداری اور قول و قرار میں بدعہدی نہ کرنا"۔[1]
لوگوں کی بےوفائی، گورنروں کے ظلم اور سچے اصحاب کا نہ ہونا باعث بنا کہ سبط اکبر (علیہ السلام) کو صلح نامہ قبول کرنا پڑے اور امام حسین (علیہ السلام) کو انتظار کرنا پڑے کہ لوگ بالکل سمجھ لیں کہ معاویہ اپنے وعدوں پر کتنا پورا اترتا ہے اور بعض لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ صلح نامہ مسلمانوں کے درمیان وحدت کا باعث بن سکتا تھا۔ لہذا دس سال کے بعد لوگوں کو سمجھ آگئی کہ معاویہ نے سارے عہدنامہ کی مخالفت کی ہے جن میں سے آخری مخالفت یزید کی ولایت عہدی تھی جس سے بنی امیہ کی ذلت لوگوں کے لئے واضح ہوگئی۔
جب خودغرض لوگوں نے معاویہ سے کہا کہ امام حسین (علیہ السلام) تمہارے خلاف قیام کرنے کی کوشش میں ہیں تو اس نے آپؑ کو خط لکھا: "تمہارے کچھ کاموں کی خبر مجھ تک پہنچی ہے، اگر صحیح ہوں تو میں تمہیں ان کا لائق نہیں سمجھتا۔ جو شخص عہد کرے اسے چاہیے کہ اس پر پورا اترے، خصوصاً تم جیسا آدمی اس مقام و منزلت کے مدنظر جو تمہارے خدا کی بارگاہ میں ہے۔ اب اپنا خیال رکھو اور اپنے عہد پر پورے اترو۔ اگر مجھ سے مخالفت کروگے تو تم سے مخالفت کروں گا"۔[2]
ابومخنف کا کہنا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے معاویہ کو خط کا جواب دیا جس کا ماحصل یہ تھا: "بسم اللہ الرحمن الرحیم، اما بعد، تمہارا خط مجھ تک پہنچا، اس کے مطالب سے آگاہ ہوا ہوں۔ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ اپنے بھائی امام حسن (علیہ السلام) کے تم سے کیے ہوئے عہد کو توڑ دوں اور جو بات تم نے خط میں کی ہے، وہ چغل خور، جھوٹ گھڑنے والوں اور تفرقہ ڈالنے والوں نے تم سے کہی ہے۔ خدا کی قسم! وہ جھوٹ بولتے ہیں[3]
تاریخی ثبوتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) کا جو معاویہ سے عہد تھا، اس کے پیش نظر، آپؑ نے خون بہنے کی روک تھام کرنے کی وجہ سے کوئی سرگرمی انجام نہ دی، حتی آپؑ کے بزرگوار بھائی حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد، جب عراق کے شیعوں نے آپؑ سے چاہا کہ آپ عراق جا کر قیام کریں، تو آپؑ نے منفی جواب دیا اور ان کو متوجہ کیا[4] کہ ہمارے اور معاویہ کے درمیان عہد ہوا ہے، صحیح نہیں ہے کہ میں اسے توڑ دوں۔ اس عہد کی مدت گزرنی چاہیے اور جب معاویہ مرگیا تو اس بارے میں سوچوں گا اور کوئی فیصلہ کروں گا۔[5]
نتیجہ: اگر امام حسین (علیہ السلام) معاویہ کے زمانہ میں قیام کرتے تو معاویہ آسانی سے عوام کے افکار کو آپؑ کے خلاف دو لحاظ سے ابھار سکتا تھا: ایک یہ کہ آنحضرت کو اس تنازعہ کا اصلی سبب قرار دیتا اور دوسری طرف سے لوگوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دیتا کہ امام حسینؑ اپنے بھائی کی صلح پر رضامند نہیں تھے، بنابریں خاموشی کو بہترین راستہ پایا اور صلح کے عہد کی بنیاد پر قیام نہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] نہج البلاغہ، مکتوب 53 (عہدنامہ مالک اشتر)، ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین، ص666۔
[2] الامامة و السیاسة، ابن قتیبة دینوری، ج 1، ص 201۔
[3] فرهنگ جامع سخنان امام حسین7، ص 267۔
[4] امام حسین علیه السلام شهید فرهنگ پیشرو انسانیّت، ص 103۔
[5] نفس المهموم، محدث قمی، ص 38۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 17 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 26