امام حسین (علیہ السلام) نے معاویہ کے دور میں قیام کیوں نہ کیا؟

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: کیونکہ یزید کھلم کھلا اسلام کو برباد کررہا تھا، لیکن اس کے باپ معاویہ کے خلاف اس لیے قیام نہ کیا کہ وہ بھی اگرچہ اسلام کو مکمل طور پر نابود کرنے کی انتہائی کوشش میں مسلسل مصروف رہا مگر اس نے منافقت کی بنیاد پر ظاہر کا خیال رکھا اور اپنی حقیقت کو چھپائے رہا۔ اگر امام (علیہ السلام) قیام کرتے تو لوگوں کو اس کی تخریب کاریاں سمجھ نہ آتیں، لہذا امام (علیہ السلام کا قیام اور محنت سب ضائع ہوجاتا۔

امام حسین (علیہ السلام) نے معاویہ کے دور میں قیام کیوں نہ کیا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

معاشرے کی صورتحال اور تبدیلیاں، اہل بیت (علیہم السلام) کی سیاست میں بنیادی حیثیت کی حامل ہیں۔ وہ لوگوں کے رہبر اور راہنما ہیں جو زمانے کو پہچانتے ہوئے لوگوں کی رہبری کرتے ہیں۔ واضح ہے کہ ہر امام معصوم کے زمانہ میں وقت اور جگہ کے حالات کا فرق رہا ہے جس کی وجہ سے ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے وقت کے تقاضوں کے مطابق پالیسیوں کو بدلا ہے۔ اسلامی سماج کے لئے جو نشیب و فراز پیش آتے رہے ان میں حضرت سیدالشہدا (علیہ السلام) حاضر تھے، ایسا نہیں کہ آپؑ نے اچانک آنکھ کھولی ہو اور آپؑ کے سامنے یزید کا خط پڑھا گیا ہو کہ آپؑ کو تسلیم ہونا چاہیے! بلکہ طویل عرصہ سے آپؑ کا جگر، خون تھا، آپؑ اپنے والد گرامی حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اور والدہ جناب فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) پر ہونے والے ظلم و ستم کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے، وقت کے ظالموں نے جو آپؑ کے بھائی حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) پر ستم ظریفی کی، آپؑ اس کے چشم دید گواہ تھے۔ آپؑ یکے بعد دیگرے دیکھتے رہے کہ کیسے مالک اشتر، اویس قرنی، ابوذر جیسی عظیم تاریخ ساز شخصیتوں کو قتل کردیا گیا، وہی شخصیتیں جو حق و حقیقت کی حامی تھیں، ان میں سے ہر ایک کا کم ہوجانا آپؑ کے دل پر ناقابل التیام زخم تھا۔
معاویہ کی حکومت کے آخری دس سالوں میں (یعنی آپؑ کی امامت کے آغاز میں) کچھ رکاوٹوں کی وجہ سے، آپؑ کا معاویہ کی حکومت کے خلاف قیام کرنا، نہ ممکن تھا اور نہ اسلامی معاشرے کے لئے فائدہ مند، لیکن توجہ رہنی چاہیے کہ آپؑ کا اس طریقہ کار کو اختیار کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپؑ معاویہ کو معاشرے کی رہبری کے لئے لائق سمجھتے تھے اور اس کے سامنے خاموشی اختیار کی، بلکہ دین کی بنیاد کو محفوظ رکھنے کے لئے، اپنے بزرگوار بھائی حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی طرح معاویہ کے خلاف قیام کرنے سے پرہیز کی۔ قیام نہ کرنے کی کیا وجوہات تھیں؟
۱۔ معاویہ کا حکومتی طریقہ کار اور ظاہری چہرہ: معاویہ، زمانہ کا عجیب دھوکہ باز شخص تھا اور خاص مکر و شیطنت کا حامل تھا، یہاں تک کہ بعض سادہ لوح لوگ سمجھتے تھے کہ وہ حضرت علی (علیہ السلام) سے زیادہ سیاستدان ہے، مگر حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے اس باطل خیال کا یہ جواب دیا: " وَاللّهِ ما مُعاوِیَةُ بِاَدْهی مِنّی، وَلكِنَّهُ یَغْدِرُ وَ یَفْجُرُ، وَ لَوْ لا كَراهِیَةُ الْغَدْرِ لَكُنْتُ مِنْ اَدْهَی النّاسِ، وَ لكِنْ كُلُّ غَدْرَةٍ فَجْرَةٌ وَ كُلُّ فَجْرَةٍ كَفْرَةٌ وَ لِكُلِّ غادِرٍ لِواءٌ یُعْرَفُ بِهِ یَوْمَ الْقِیامَةِ"[1]، " خدا کی قسم! معاویہ مجھ سے زیادہ چالاک اور ہوشیار نہیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ وہ غداریوں سے چوکتا نہیں اور بدکرداریوں سے باز نہیں آتا۔ اگر مجھے عیاری و غداری سے نفرت نہ ہوتی تو میں سب لوگوں سے زائد ہوشیار اور زیرک ہوتا۔ لیکن ہر غداری گناہ اور ہر گناہ حکم الہی کی نافرمانی ہے۔ چنانچہ قیامت کے دن ہر غدار کے ہاتھوں میں ایک جھنڈا ہوگا جس سے وہ پہچانا جائے گا۔ خدا کی قسم! مجھے ہتھکنڈوں سے غفلت میں نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ سختیوں سے دبایا جاسکتا ہے"۔[2]
یہ بری صفت، معاویہ میں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوا کرتی تھی، کبھی مسکراہٹ اور خوشی کی صورت میں اور بہت مواقع پر اس دھوکہ کو صبر و تحمل کے لبادہ میں ظاہر کیا کرتا تھا یہاں تک کہ اکثر تاریخ نویس، غلطی کا شکار ہوئے ہیں، اور اس کو انہوں نے اس کی روحانی صفت کے طور پر ذکر کیا ہے[3]، لیکن یہ صبر و تحمل، اس کی دھوکہ بازی کا ایک نمونہ ہے جسے وہ اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنے کے لئے اختیار کرتا تھا نہ کہ اخلاقی فضیلت اور دینی اعتقاد کے لحاظ سے۔ بہرحال معاویہ کا سیاسی صبر و تحمل، ظاہر کو دیکھنے والے اور سادہ مزاج لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے ایک بہت بڑا حربہ تھا۔
اس نے امام حسن مجتبی (علیہ السلام) سے جنگ کے زمانے میں، ایک طرف سے قیس ابن سعد (جو امام حسنؑ کے لشکر کا گورنر تھا) کے لشکر کو صلح کی خبر دی اور دوسری طرف محاذ جنگ کے پچھلے حصہ میں اعلان کردیا کہ قیس نے معاویہ کے ساتھ سازباز کرلی ہے! اس نے اس حربہ کے ذریعے امام حسن (علیہ السلام) کے لشکر کے محاذ کی صف اول اور محاذ کے پچھلے حصہ کے درمیان ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی پیدا کردی اور آنحضرتؑ کے افراد لشکر کے درمیان اختلاف ڈال دیا۔[4]
نیز اس نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے اس بات کی تائید کے لئے کہ "لوگوں کو چاہیے کہ خلیفہ کی مکمل طور پر اطاعت کریں"،  بہت ساری احادیث پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نسبت دیتے ہوئے جعل کیں۔ یہ احادیث، ظاہر کو دیکھنے والے اور سادہ مزاج لوگوں کو راضی کردیتی تھیں، جیسے اس نے کہا کہ "ہر حکمران کی اطاعت کرو اور ہر حاکم کے پیچھے نماز پڑھو[5]"۔ معاویہ کے جھوٹ بولنے کی سیاست، پورے عالم اسلام خاصکر شام میں اتنی اثرانداز ہوئی کہ حتی دیندار لوگ بھی حقیقت کے بارے میں شک و شبہ میں پڑگئے یہاں تک کہ ان میں سے بعض معاویہ کے جھوٹوں کو صحیح سمجھتے تھے اور ان جھوٹوں کو نقل کرتے تھے۔[6]
۲۔ جاہلی ثقافت اور قبائلی تعصبات کو فروغ دینا: معاویہ نے ایک اور طریقہ کار جو اپنی حکومت کے مخالفوں کو کمزور کرنے کے لئے اپنایا تھا، یہ تھا کہ وہ خود اور اس کے کارندے اپنی باتوں اور کردار کے ذریعے عربی قبائل کے تعصبات کو اکساتے تھے اور اس طریقہ سے اسلامی معاشرے کو قبائلی معیاروں اور اقدار کی پیروی کرنے کی ترغیب دلاتے تھے۔ وہ ایک طرف سے قبائل کی محبت کو ان کے سرداروں کی محبت کے ذریعے حاصل کرتا تھا اور دوسری طرف سے جب ان کی طاقت اور اثر و رسوخ اس کی حکومت کے لئے خطرہ کا باعث بنتا تو وہ ان کے آپس میں اختلاف ڈال دیتا۔ وہ اس طریقہ اور سیاست کو حتی اموی خاندان اور اپنے رشتہ داروں کے لئے بھی استعمال کرتا تھا۔ علامہ اہلسنت ابن ابی الحدید معتزلی نے تحریر کیا ہے: "معاویہ کو یہ پسند تھا کہ قریش کو ایک دوسرے کے خلاف اکسائے[7]
معاویہ نے اس سیاست کے استعمال سے ایک طرف سے قبائل کے دلوں میں پرانے کینوں اور دشمنیوں کی آگ بھڑکائی اور ان کی توجہ کو ان کے حقیقی دشمن یعنی بنی امیہ سے ہٹا دیا اور دوسری طرف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حضرت امام علی، امام حسن اور امام حسین (علیہم السلام) کی اُن سب محنتوں کو برباد کردیا جو ان حضراتؑ نے ہرطرح کی برتری پسندی اور قبائلی مقابلہ بازیوں کو ختم کرنے کے لئے کی تھیں۔
۳۔ اپنے کاموں پر دین کا لبادہ اوڑھانا: معاویہ کوشش کرتا تھا کہ اپنے کاموں کو دینی اور شرعی رنگ دے اور انہیں اسلام و قرآن کے مطابق دکھلائے، وہ دینداری کے اظہار کے ساتھ ساتھ، خلاف شریعت کاموں کا ارتکاب کھلم کھلا نہیں کرتا تھا اور ظاہری طور پر ایسے اظہار کرتا تھا کہ لوگ سمجھیں کہ وہ دین کے احکام اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرامین کو اچھے طریقہ سے جاری کررہا ہے۔
لہذا معاویہ کی  حکمرانی کے اس طریقہ کے پیش نظر کہ وہ اگرچہ بالکل اسلام کے خلاف بھرپور سرگرم  رہا مگر دینداری کا اظہار کرتا تھا تو اگر ایسی صورتحال میں حضرت امام حسین (علیہ السلام) اس سے جنگ کرتے تو یقیناً آپؑ کی تحریک کا امت مسلمہ پر وہ اثر نہ پڑتا جو یزید کے دور میں پڑا، کیونکہ معاویہ مذکورہ طریقوں سے امام معصوم (علیہ السلام)کے قیام کے نتائج کو بے اثر کردیتا تھا اور آنحضرتؑ کے قیام کو خلیفہ حق کے خلاف بغاوت دکھلاتا  ہوا عوام کے افکار کو اس قیام کے خلاف اکسا دیتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آپؑ بھی اپنے بھائی حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی طرح مظلومانہ طریقہ سے "خاموش موت" کا سامنا کرتے تو قیام اور کوششیں بھی ضائع ہوجاتیں، مظلومیت بھی چھپ کر رہ جاتی اور دشمن کا حقیقی چہرہ بھی عیاں نہ ہوپاتا۔
نتیجہ: حکمت عملی کی بنیاد پر ہر معصومؑ نے الگ اور خاص طریقہ سے دشمن سے مقابلہ کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دور کے دشمن نے  دشمنی کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، مگر مسند خلافت پر غاصبانہ قبضہ کرکے چہرے بدل بدل کر مسلمانوں پر حکمرانی کرتے رہے، کسی نے ظاہر کا خیال رکھا اور لوگوں کو اپنا دیندار ہونا اور اسلام کا پابند ہونا ظاہر کیا اور اندر سے مسلسل اسلام کو کھوکھلا کرتا رہا اور کسی نے دین اسلام کے احکام کو بالکل پامال کرتے ہوئے کھلم کھلا مخالفت، دشمنی اور بدعتوں کا راستہ اختیار کیا، جس نے اسلام کا لباس پہن کر اسلام کی جڑیں چھپ چھپ کر کاٹیں، اس سے معصومین (علیہم السلام) نے برتاؤ کرنے کے خاص طریقے اختیار کیے اور جو سرعام اسلام کی نابودی کے لئے چیخنے لگا اور مسلمانوں سے اپنی بیعت لے کر اپنے کفر کو منظر عام پر پیش کرنے لگا، اس سے اہل بیت (علیہم السلام) نے اور طرح کا برتاؤ کیا، جب اللہ کا دشمن اپنی منافقت کا پردہ چاک کرکے کافرانہ باتیں اور اور مشرکانہ کردار پیش کرتا ہوا انسانی معاشرے کی اسلامی اقدار کو کچلتا ہوا میدان میں کود پڑا تو اس وقت حجت الہی نے بحکم الہی ایسی آواز حق بلند کرنا ضروری سمجھی جو عالم کی مشرق و مغرب میں گونج اٹھی، جس نے رہتی دنیا تک نسل بہ نسل انسانوں کے ضمیروں کو بیدار کردیا۔  اس صدائے حق کے بلند کرنے کی اہمیت اسقدر زیادہ تھی کہ چاہے جان جاتی ہے تو جائے مگر اللہ کے دین کو پامال نہیں ہونے دینا، چاہے اپنا گھرانہ اجڑتا ہے تو اجڑ جائے، لیکن دین کے اکھاڑے گئے ارکان کو تا قیامت مضبوط، آباد اور زندہ  کردینا ہے، مگر یہ اس وقت ممکن ہوا جب دشمن برسرعام، دین سے دشمنی کرنے لگا، لیکن معاویہ چونکہ اپنے آپ کو دین کا محافظ ظاہر کرتا تھا تو عوام کو قیام حسینی کی سمجھ نہیں آسکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] نہج البلاغہ، خطبه 198۔
[2] نہج البلاغہ اردو ترجمہ، علامہ مفتی جعفر حسین، ص493۔
[3] تاریخ خلفا، جلال الدین سیوطی، ص 195.
[4] تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 214.
[5] نظام حکومتی و اداری در اسلام، باقر شریف قرشی، ترجمه عباسعلی سلطانی، ص 284۔
[6] شرح نهج البلاغه، ابن ابی الحدید معتزلی، ج 11، ص 45۔
[7] شرح نهج البلاغه، ابن ابی الحدید معتزلی، ج 11، ص19۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 77