تاریخ
۲۴ ذی الحجہ عید مباہلہ کا دن ہےاس دن رسول خدا (ص) نے نصاریٰ نجراں سے مباہلہ کیا اور اسلام کو عیسایت پر کامیابی حاصل ہوئی۔
خلاصہ: آیت مباہلہ اور آیت برائت کے واقعہ سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ نفس رسول (ص) ہونے کا اعزاز صرف حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کو حاصل ہے، نیز اہلسنت نے بھی کئی روایات اور دلائل پیش کیے ہیں کہ آپ ہی نفس رسول (ص) ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران اور بعث پارٹی (جسکی قیادت ظالم زمان صدام کے ہاتھ میں تھی) کے درمیان آٹھ سال تاریخی جنگ ہوئی جسمیں اسلامی جہوریہ کے نوخیز نظام کو ختم کرنے کے لئے مشرق و مغرب کی ظالم طاقتوں نے صدام کا ساتھ دیا لیکن اسلامی تعلیمات اور باایمان جوانوں کی برکت سے صدام اور اسکی پشت پناہ تمام طاقتیں ناکام ہوئیں اور اسلامی جہوریہ کا عظیم پرچم آج بھی افق عالم پر بلند ہے اور انشاء اللہ رہے گا۔ اس جنگ کو ایران کے اسلامی ثقافت کے ماہرین نے دفاع مقدس نام رکھا ہے۔ ہم ذیل میں رہبر معظم انقلاب کے فرامین کی روشنی میں دفاع مقدس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
اربعین حسینی سے مراد سنہ 61 ہجری کو واقعہ کربلا میں امام حسین ؑ اور آپ ؑ کے اصحاب کی شہادت کا چالیسواں دن ہے جو ہر سال 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔
خلاصہ: قیام امام حسین علیہ السلام، اسلام کے تحفظ و بقا کے ساتھ ساتھ انسانیت کی نجات کا سامان فراہم کرنے کے لئے بھی تھا، یہی سبب ہے کہ یہ واقعہ، آج تک انسانیت کو گمراہی سے نکال کر ہدایت کی طرف لے جاتا ہے اور امام علیہ السلام سے وابستگی کا بھرپور اثر دکھاتا ہے۔
محرم الحرام انسانیت کو خدا محوری، غیرت دینی، اور ہر دور کےظالموں کے خلاف برسر پیکار ہونے کا درس دیتا ہے.
خلاصہ: کربلا کی بقا، حقیقت میں پیغمبر اکرم (ص) اور امیرالمومنین (ع) سے لیکر قیام قیامت تک بشریت کے دشمنوں کے خلاف اظہار نٖرائت اور صدائے احتجاج کا نام ہے اور ہر سال یہی پیغام لیکر محرم کا چاند فلک پہ نمودار ہوتا ہے۔
خلاصہ: غدیر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان کردیا تھا، مگر منافقین نے مختلف طرح کی سازشوں سے خلافت کو غصب کرتے ہوئے امیرالمومنین (علیہ السلام) کو خانہ نشین کردیا، نیز دین میں مختلف بدعتیں ایجاد کردیں یہاں تک کہ دین اسلام بنیادی طور پر خطرہ میں پڑگیا تو امام حسین (علیہ السلام) نے قیام کرتے ہوئے ولایت غدیر کے ذریعے مکمل ہونے والے دین اسلام کا تحفظ کیا۔
خلاصہ: حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے مختصر تعارف کے بعد آپ کا مختلف ادوار میں کردار بیان کیا گیا ہے، رسول اللہ (ص) کے زمانہ میں، تینوں خلفاء کے دور میں اور حضرت امیرالمومنین (ع) اور امام حسن (ع) کے دور امامت میں۔
کربلا کے عصری تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ مکتب کربلا کو بعنوان ایک عبرت گاہ کے اپنی زندگیوں میں عبرت کے حصول کا ذریعہ قرار دیں۔ اور کوشش کریں کہ 61 ھجری کی امت اسلامیہ کا کردار تکرار نہ ہو اور سید الشھداء (ع) کی عزادرای کا سب سے بڑا پیغام بھی یہی ہے۔