خلاصہ : امت رسول نے نواسہ رسول کو مدینہ میں نہ رہنے دیا، حاکم وقت نے کہا کہ یا تو یزید کی بیعت کریں یا پھر وطن چھوڑیں۔
جب معاویہ کا60 ہجری قمری میں انتقال ہوا تب یزید نے والی مدینہ کو یہ حکم دیا کہ امام حسین (علیہ السلام) سے بیعت لے اور والی مدینہ، ولید ابن عقبہ نے امام حسین (علیہ السلام) سے بیعت کرنے کو کہا تو امام علیہ السلام نے ایک رات کی مہلت مانگی اور دوسرے دن امام اپنے اہل خانہ کے ساتھ مکہ روانہ ہو گئے۔
3 شعبان کو امام مکہ جا پہنچے اور دوسری طرف جب معاویہ کے مرنے کی خبر پہنچی تو سب لوگ سلیمان ابن صرد خزاعی کے گھر جمع ہو گئے اور انہوں نے امام حسین (علیہ السلام) کو خط لکھا کہ وہ کوفہ آئیں اور ان کے علاوہ اور بھی لوگوں نے خط لکھے کہ جن میں سے بعض کے نام تاریخ میں درج ہیں جیسے : قيس ابن مسهّر، عبدالرحمان ارحبي، عمارة ابن عبدالسلولي، هاني ابن هاني،سعيد ابن عبدالله حنفي۔
جب خطوں کی تعداد بہت زیادہ ہوئی تو امام حسین (علیہ السلام) نے حضرت مسلم ابن عقیل کو اپنا نمائندہ بنا کر کوفہ کی طرف طرف روانہ کیا [1]
جب حضرت مسلم کوفہ پہنچے ہیں تو لوگوں نے بہت بڑے اجتماع کے ساتھ استقبال کیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت بھی کی۔ حضرت مسلم نے جب یہ سب دیکھا تو امام حسین (علیہ السلام) کو خط لکھا کہ آپ کوفہ آجائیں۔ یہ سب ماجرا یزید تک پہنچا تو یزید نے نعمان ابن بشیر کو حکومت سے ہٹا کر عبیداللہ ابن زیاد کو اس کی جگہ حاکم کوفہ بنا دیا۔
اب جیسے ہی عبیداللہ ابن زیاد کی حکومت آتی ہے تو کوفہ کے حالات بدل جاتے ہیں اور حضرت مسلم کے ساتھی بھی ایک ایک کر کے سب چھوڑ گئے یہاں تک جناب مسلم تنہا رہ گئے، پہلے تو ان سے جنگ کی گئی پھر ایک حیلہ سے گرفتار کیا اور آخر کار انہیں شھید کر دیا۔[2]
امام حسين(علیہ السلام) کو جب خبر ملتی ہے کہ یزید چاہتا ہے کہ خانہ خدا کو خون و خون کرے تو آپ نے 8 ذی الحجہ کو مکہ چھوڑ دیا تاکہ خدا کے گھر کا احترام باقی رہ جائے، جب آپ نے مکہ چھوڑا اور کوفہ کی جانب حرکت کا ارادہ کیا تو محمد حنفيه اور ابن عباس نے مشورہ دیا کہ کوفہ نہ جائیں۔
امام (علیہ السلام) نے کوفہ کا راستہ اپنایا اور جب حاجر نامی جگہ پر پہنچتے ہیں تو قيس ابن مسهّر کو کوفہ بھیجتے ہیں تاکہ انہیں کوفہ کے حالات سے آگاہ کرے اور جب امام (علیہ السلام) ثعلبیہ کے مقام پر پہنچتے ہیں تو آپ کو جناب مسلم ابن عقیل کی شھادت کی خبر ملتی ہے۔ [3]
جب امام (علیہ السلام) شراف نامی مقام پر پہنچتے ہیں تو حرّ ابن يزيد کی فوج آپ سے آ ملتی ہے، امام (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ انہیں پانی پلایا جائے اور ان کو کھانا کھلایا جائے، پھر نماز ظہر کا وقت ہوتا ہے تو سب نے امام (علیہ السلام) کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ امام (علیہ السلام ) نے فرمایا کہ اگر کوفہ والے اپنے وعدہ پر باقی نہیں ہیں تو میں واپس چلا جاتا ہوں، حر نے کہا کہ مجھے حکم ہے کہ میں آپ کا راستہ روکوں اور کوفہ نہ جانے دوں اور انتطار کروں تاکہ کوئی دوسرا حکم آئے۔ [4]
البتہ یہ بات واضح رہے کہ امام (علیہ السلام) نے کوفیوں پر حجت تمام کی کہ تم نے خود ہی خط لکھے تھے اور اب کہتے ہو تو واپس چلا جاتا ہوں۔ [5]
عمر ابن سعد نے اس پورے قضیہ کو عبیداللہ ابن زیاد کے سامنے پیش کیا تو ابن زیاد نے حکم دیا کہ سب کے سب یزید کی بیعت کریں اور اسے امیر المؤمنین مانیں اور جو بھی انکار کرے اسے قتل کر دیں۔
7 محرم کو عبیداللہ کے کہنے پر پانی بند کر دیا گیا، عمرسعد نے پانی پر فوجوں کو کھڑا کر دیا اور یہ حکم دیا کہ ایک قطرہ بھی آل رسول تک نہیں پہنچنا چاہیے۔
9محرم عصر کےوقت شمر ابن ذی الجوشن نے حضرت عباس کو بلایا اور ان سے کہا کہ اگر کہو تو میں تمہیں امان دیتا ہوں تاکہ زندہ رہ سکو۔
حضرت عباس (علیہ السلام) نے اسے فوراً جواب دیا کہ خدا تم پر لعنت کرے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں امان میں رہوں جبکہ فرزند رسول امان میں نہیں ہیں۔ [6]
جب 10 محرم کی رات آتی ہے تو امام (علیہ السلام) نے سب کو جمع کیا اور فرمایا کہ چراغ بھجا دو اور پھر فرمایا میں تم سے راضی ہوں، جو بھی جانا چاہتا ہے چلا جائے، روایت کے جملے ہیں کہ تین مرتبہ چراغ بھجایا گیا لیکن کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ اٹھا بلکہ یہ کہا کہ آپ کو چھوڑ کے کہاں جائیں ہماری جان و مال آپ کے لیے حاضر ہے۔ [7]
10 محرم کے دن امام (علیہ السلام) نے خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! میں فرزند رسول ہوں، مجھے پہچانو اپنے ہاتھوں کو میرے خون میں رنگین نہ ہونے دو اور پھر عمر سعد کی طرف دیکھ کر کہا کہ تم یہ سب کچھ حکومت ری کے لیے کر رہے ہو لیکن کبھی بھی اپنی آرزو تک نہیں پہنچ پاؤ گے۔ [8]
نتیجہ
کسی کو فرزند رسول پر رحم نہ آیا اور جنگ کا حکم دے دیا۔ فرزند رسول اور ان کے ساتھیوں کو ایک ایک کر کے شھید کر دیا اور ان کے اہل خانہ کو شہر بشہر پھرایا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات
[1] . محدث قمي، سفينة البحار، تهران، فراهاني، بيتا، ج2، ص467.
[2] . مجلسي، محمدباقر، بحارالانوار، بيروت، مؤسسه الوفاء، 1403ه ق، ج44، ص340.
[3] . مجلسي، مذکورہ۔
[4] . ابن اثير، الكامل، بيروت، داراحياء التراث، 1408، ج2، ص562.
[5] . هاشمي، علي ابن حسين، الحسين في طريقه الي الشهادة، قم، شريف رضي، 1413، ص94.
[6] . ابن اثير، مذکورہ کتاب، ج2، ص558.
[7] . هاشمي، علي بن حسين، مذکورہ کتاب، ج3، ص175.
[8] . تقوي، ابوالفضل، تمدن اسلام و ايران، قزوين، بحرالعلوم، چاپ اول، 1375، ص56.
Add new comment