امام کی معرفت

Sun, 04/16/2017 - 11:16

اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کرنا واجب ہے جیسا کہ واقعہ کربلا نے واضح کر دیا کہ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں کہ جنہیں اپنے زمانے کے امام کی معرفت ہے، اگر واقعہ کربلا رونما نہ ہوتا تو حق و باطل پر لوگوں کی پہچان بہت مشکل ہو جاتی۔ 

امام کی معرفت

«من مات و لم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة»
اس بات کو واضح کرنے کے لیے ہمیں پہلے روایت میں موجود الفاظ کی طرف توجہ کرنی ہوگی مثلا یہ کلمہ کہ «میتة جاهلیة» (جھالت کی موت  مرنا) اس سے کیا مراد ہے یعنی جاہل مرا ہے یا کچھ اور مراد ہے، اسے سمجھنے کے لیے جب ہم نے روایات کی طرف نظر کی تو ہمیں حضرت امام صادق(علیه السلام) کی ایک روایت ملی کہ جب کسی نے امام (علیہ السلام ) سے سوال کیا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و ٓلہ وسلم) کی اس حدیث میں جھالت کی موت سے کیا مراد ہے تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا:اس روایت میں جاہلیت سے مراد کفر و نفاق اور گمراہی کی موت ہے۔
اور اسی طرح مرحوم کلینی نے بھی اس روایت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ جاہلیت سے مراد امام کا منکر ہونا ہے اور منکر ہونا یعنی کفر ہے اور یہ مرحلہ بہت سنگین مرحلہ ہے۔[1]
اب آتے ہیں روایت میں موجود اس كلمه «لم یعرف»  کی طرف کہ اس سے کیا مراد ہے؟
معرفت سے مراد ظاہری معرفت نہیں ہے بلکہ اعتقاد کی بات ہورہی ہے۔ مثال کے طور پر ہم بہت سی چیزوں کو  نہیں دیکھتے تو کیا ہمیں ان کی معرفت بھی نہیں ہے جیسے ملائکہ اور دوسری موجودات ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ معرفت ظاہری معرفت نہیں بلکہ عقلی معرفت ہے ورنہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جنہوں نے ائمہ علیھم السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا پھر بھی ان کے پاس معرفت نہیں تھی کیونکہ ان کا اعتقاد نہیں تھا اور وہ کفر پر تھے۔
اسی وجہ سے علماء کا کہنا یہ ہے کہ معرفت سے مراد امام علیہ السلام کی امامت اور ولایت الہی پر اعتقاد ہے۔
اہل سنت کے مشھور عالم دین علامہ افندی کا کہنا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اس حدیث پر تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے اور اس زمانے کے امام، مہدی صاحب الزمان (عج) ہیں کہ جو شہر سامرا میں متولد ہوئے اور وہ نبی کی وراثت اور وصایت اور امامت کے وارث ہیں اور حکمت الہی یہ ہے کہ یہ امامت کا سلسلہ تا قیامت باقی رہے، اسی لیے انہیں مصلحت کی بنیاد پر مخفی رکھا ہوا ہے ۔»[2]
یہاں پر میں ایک روایت نقل کرتا ہوں کہ امام صادق (علیہ السلام)  نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے روایت نقل کی کہ آپ نے فرمایا: جو بھی غیبت کے زمانے میں میرے فرزند حضرت قائم (عج) کا انکار کرے گا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے [3]
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیبت کے زمانے میں کیسے پہچانیں یہ ہمارے امام ہیں تو اسے سمجھنے کے لیے چند راستے بیان ہوئے ہیں، ہم مختصر طور پر ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
1ـ نص: نص یعنى پیغمبر(صلى الله علیه وآله) کا واضح اور روشن اعلان۔
امامتِ امام عصر (عج) اور ان کا نام اور كُنیت اور صفات، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف سے جو ہم تک متواتر طریقے سے پہنچی ہے وہ تقریباً 6000 احادیث ہیں اور اسی طرح امام (عج) کا نام مبارک کہ جو تقریبا ً 145 تاریخی كتب میں ذکر ہوا ہے.[4] 
2ـ معجزه: دوسرا راستہ معجزہ ہے۔ امام صادق(علیه السلام) سے کسی نے پوچھا کہ معجزہ کیا ہے تو آپ نے فرمایا: ایسا کام یا عمل کہ جسے خدا نے اپنے خاص بندوں کو عطا کیا ہے کہ جس کے ذریعے وہ خود کو خدا کے حقیقی نمائندے کہلوا سکیں اور وہ کام ان ہستیوں کے علاوہ کوئی اور انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتا۔»[5]
اور یہ بھی واضح رہے کہ فرقین کی کتب میں امام عصر (عج) کے کئی معجزات نقل ہوئے ہیں۔ [6]
اور اس زمانے میں جو چیز ضروری ہے وہ امام (علیہ السلام ) کا وجود ہے کہ جس کی وجہ سے یہ کائنات باقی ہے اور اس پر عقیدہ رکھنا، معرفت کہلاتا ہے اور جو یہ عقیدہ نہ رکھے تو وہ جب مرے گا تو جاہلیت کی موت مرے گا۔ [7]
یہی وجہ ہے کہ امام صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا: خدا کے برگزیدہ افراد ہم ہیں اور ہماری اطاعت کرنا واجب ہے۔[8]
نتیجہ
ہم میں سے ہر انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم اپنے زمانے کے امام کی معرفت رکھتے ہیں یا نہیں، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کہیں وہی کردار تو نہیں اپنا رہے کہ جو کل کربلا میں مسلمانوں کا کردار تھا وہ ظاہری طور پر تو مسلمان تھے لیکن رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اس حدیث کی روشنی میں کافر تھے۔
------------------------------------------------------------------------------- 
حوالے جات
[1]- محمد ابن یعقوب كلینى، اصول كافى، سید جواد مصطفوى (انتشارات مسجد چهارده معصوم) ج 2، ص 209 و 208) ح3. 
[2]- ابوطالب تجلیل، من هو المهدى (مؤسسه نشر اسلامى، سال 1409 هـ ق) ص 9. به نقل از «تاریخ آل محمد» علامه افندى. 
[3]- صافى گلپایگانى، منتخب الاثر فى امام الثانى عشر (مؤسسه حضرت معصومه، سپهر قم، سال 1419 هـ ق) ص 625.
[4]- صافى گلپایگانى، مذکورہ کتاب، و ابوطالب تجلیل، مذکورہ کتاب، ص 68ـ62. 
[5]- شیخ صدوق، علل الشرایع، انتشارات الداورى، ج 1، ص 122، باب 100. 
[6]- كتاب سلسله مباحث امامت و مهدویت حضرت آیت اللّه صافى گلپایگانى (قم، حضرت معصومه(علیها السلام)، سال 1357) ج 8، ص 90 سے ماخوذہ. 
[7]-مسند احمد ابن حنبل، مؤسسه الرسالة، (تحقیق از شعیب الأرنووط)، ج28، ص 88، ح16876. 
و هیثمى، مجمع الزوائد، دار الكتاب العربى، چاپ سوم، 1402 هـ، ج5، ص225. 
مسند ابن یعلى موصلى، دار المأمون للثرات، (تحقیق حسین سلیم اسد)، ج13، ص366، ح7375. 
[8]- ابوجعفر احمد بن خالد البراقى، المحاسن (دارالكتب الاسلامیه) ج 1، ص 153،

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 87