واقعہ کربلا ہمیں اس چیز کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ ظلم اور ظالم کے سامنے کبھی بھی نہیں جھکنا چاہیے۔
واقعہ کربلا ۱۰ محرم الحرام ۶۱ ہجری قمری کو رونما ہوا۔ یہ دن عاشورا کے نام سے بھی بہت معروف ہے یہ واقعہ حضرت امام حسین (علیہ السلام)، نواسہ رسول اور یزید ابن معاویہ کے درمیان ہوا کہ جو بنی امیہ کا سردار تھا، اس واقعہ کی علت یہ تھی کہ نواسہ رسول نے یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کی تھی بلکہ یہ کہا تھا کہ مجھ جیسا انسان یزید جیسے بد کردار کی بیعت نہیں کر سکتا ہے۔ یہی وجہ بنی کے حسین ابن علی (علیہ السلام) کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا وطن چھوڑ دیں، پہلے اس کاروان کو مکہ خانہ خدا سے جانے کو مجبور کیا پھر جب یہ کاروان عراق کے ایک مقام جو کربلا کے نام سے تھا، وہاں پر روک دیا گیا۔ جس دن اس کاروان کا راستہ روکا گیا وہ ۲ محرم کا دن تھا اور ۳ محرم کو عمر سعد ۴۰۰۰ کی فوج کے ساتھ کربلا میں پہنچ جاتا ہے اور اسی طرح ہر روز دشمن کی فوج بڑھتی گئی کہ ۷ محرم آگئی کہ جس دن عبداللہ ابن زیاد۴۰۰۰ کی فوج کے ساتھ کربلا آگیا اور آتے ہی اس نے حکم دیا کہ نواسہ رسول حسین ابن علی پر پانی بند کردیا جائے اور ۹ محرم کو شمر ۴۰۰۰ کی فوج کے ساتھ کربلا آپہنچا اور اس کے ہاتھ میں ایک خط تھا جس میں لکھا تھا کہ نواسہ رسول حسین ابن علی کو قتل کردو اور یہ لکھا تھا کہ اگر عمر سعد یہ کام نہیں کرسکتا تو سالاری شمر کے ہاتھ میں دے دے۔
آخر کار ۱۰ محرم کا دن آگیا دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے آگیں اور فوج کی تعداد کچھ اس طرح تھی کہ ابو مخنف لکھتے ہیں کہ ۳۲ لوگ گھوڑے سوار تھے اور ۴۰ لوگ پیدل تھے یہ فوج تھی نواسہ رسول کی اور دوسری طرف یزید کی فوج کی تعداد ۳۱۰۰۰ تھی [۱] اور محمد باقر راوی کے مطابق ۴۵ افراد گھوڑے سوار تھے اور ۱۰۰ افراد پیدل تھے .[۲] اور دوسری طرف دشمن کی فوج میں ۳۰۰۰۰ کی فوج تھی [۳] پیاسوں کے ساتھ جنگ شروع ہوئی اور ۷۲ لوگوں کو شھید کردیا گیا کہ جس میں ایک بچے بھی تھا کہ جس کی عمر راویوں نے ۶ ماہ لکھی ہے اور ان ۷۲ کے سروں کو نیزوں پر بلند کر دیا گیا اور اس کے بعد ان کی لاشوں پر گھڑے دوڑا دیے گئے اور انہیں پامال کیا گیا۔[۴]
اوپر جن دو راویوں کا نام ذکر کیا ہے، دونوں نے یہ لکھا ہے کہ لاشے پامال کرنے کے بعد فوج نے نواسہ رسول کے خیموں کو آگ لگا دی اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ایک شخص کہ جس کانام بجدل ابن سلیم تھا اس نے انگھوٹھی کی لالچ میں حسین بن علی کی انگلی کاٹ دی البتہ یہ بات واضح رہے کہ جو انگھوٹھی رسول خدا کی عطا کردہ تھی وہ امام سجاد (علیہ السلام) کو دے دی تھی اور دوسری کو بجدل ابن سلیم نے ظلم کے ساتھ اتار لیا ،اس کے بعد رسول کی نواسیوں کو قید کر کے لے گئے اور تمام شھیدوں کو ایسے ہی کھلے آسمان تلے چھوڑ دیا اور تیسرے دن ایک قوم کہ جو بنی اسد کے نام سے معروف تھی اس کے ہاتھوں یہ لاشے دفن ہوئے ۔ [۵]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات
۱۔ قیام جاوید، گردانیده مقتل الحسین ابی مخنف، ترجمه و تصحیح حجت الله جودکی، مؤسسه فرهنگی انتشاراتی تبیان، ۱۳۷۷، ص ۷۸
۲۔ سید بن طاووس، ترجه عقیقی بخشایشی. لهوف. دفتر نشر نوید اسلام، ۱۳۷۷. ۱۲۵.
۳۔ آینده روشن - تعداد لشکر یزید در مقابل لشکر امام حسین (ع)
۴۔ قیام جاوید، گردانیده مقتل الحسین ابی مخنف، ترجمه و تصحیح حجت الله جودکی، مؤسسه فرهنگی انتشاراتی تبیان، ۱۳۷۷، ص ۷۸
۵۔ نفس المهموم،ص326.
Add new comment